’کچھ نہیں ہوتا‘ یا ’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘

جرمنی میں نئے آنے والے پاکستانیوں کو اکثر ان کے رشتہ دار کامیابی کے شارٹ کٹ بتاتے ہیں۔اپنی انفرادی خوش قسمتی کا حوالہ دے کر آپ کو اکسانے والے آپ کے دوست نہیں ہو سکتے۔

’کچھ نہیں ہوتا‘ یا ’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘
’کچھ نہیں ہوتا‘ یا ’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘
user

Dw

جرمنی میں زبان، اصول، قائدے اور قانون سمجھنے کے لیے تو شاید ایک زندگی کچھ تھوڑی ہے۔روزمرہ زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں، جب قانون سمجھنے کے لیے ہمیں کسی کی مدد درکار رہتی ہے۔ جرمنی میں امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا وغیرہ سے قوائد و قوانین قدرے مختلف تو ہیں ہی مگر زبان کی دقت مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔آن لائن ذرائع کی وجہ سے اب یہ معلومات حاصل کرنا کافی آسان ہو چکا ہے۔

يوٹيوب چینلز سے لے کر فیس بک گروپ سوالات اور جوابات سے بھرپور ہیں۔ معلومات کی رسائی میں اتنی آسانی جہاں سہولت دیتی ہے وہیں غلط معلومات کافی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ جہاں بہت سے لوگ اپنے اپنے تجربے کے مطابق تفصيلاً طریقہ کار واضح کرتے ہیں وہیں کوئی نہ کوئی آپ کو یہ بھی بتائے گا کہ ہر طریقے کا کچھ شارٹ کٹ یا کوئی جگاڑ موجود ہے۔ جس خود اعتمادی اور دیدہ دلیری سے ہم میں سے کچھ لوگ قوانین کو نہ صرف خود نظر انداز کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں وہ شاید بے مثال ہے۔


جرمنی پہچنے سے پہلے خواتین کا عام پوچھے جانے والا سوال سامان میں قیمتی اشیاء خاص کر سونا لانے سے متعلق ہوتا ہے۔ اس سے متعلق واضح قانون موجود ہے اور سونے کے موجودہ ریٹ کے مطابق زیادہ سے زیادہ حد بھی زیور کے بہت مختصر وزن میں ہی پوری ہو جاتی ہے۔ مگر سوال پوچھنے پر کوئی نہ کوئی آپ کو یہ ضرور بتائے گا کہ وہ تو سارا زیور لائے تھے اور کسی نے نہیں پوچھا تھا۔ ان کا یہ تجربہ ایک انفرادی خوش قسمتی تو ہو سکتا ہے مگر باقی سب کے لیے بھی اسی نتیجے کا ضامن ہر گز نہیں۔

اسی طرح بہت سی کھانے پینے کی اشیاء باہر کے ممالک سے لانے پر پابندی ہے۔ ان اشیاء کی فہرست کسی کو بھی ازبر نہیں ہوتی اس لیے معلوم نہ ہونے کی صورت میں کوئی جواب نہ دینا زیادہ فائدہ مند ہے نہ کہ صرف سب لے آؤ اتنا بھی کیا ڈرنا کہہ کر حوصلہ افزائی کرنا ہے۔


پاکستان میں ٹورنٹ سے کوئی بھی فلم ڈاؤن لوڈ کرنا، کسی بھی لنک سے براہ راست نشریات دیکھنا وغیرہ ایک قابل قبول عام فعل ہے۔ اس عمل کو غیر قانونی تو دور کی بات غير اخلاقی بھی تصور نہیں کیا جاتا مگر جرمنی میں یہ غیر قانونی فعل ہے اور خاطر خواہ جرمانہ ہو سکتا ہے۔ یہ سوال پوچھنے پر اکثر مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

آج کل بھی کرکٹ کے ایشیا کپ کے میچ دیکھنے کے لیے یہ سوال کافی پوچھا جا رہا ہے۔ عام جوابات میں جہاں سبسکرپشن خریدنے کا بتایا گیا وہیں ہمارے کچھ نڈر شہری دوسروں کو بھی "ڈر کے جینا بھی کیا جینا" کا سبق دیتے نظر آئے۔ ایک کمنٹ جو خاص طور پر میری توجہ کا مرکز بنا وہ کچھ یوں تھا کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ڈریں گے تو کسی دن سانس لینا بھی چھوڑ دیں گے۔


ایک اور قانون جو پاکستان سے آکر کسی صورت ہضم نہیں ہو پاتا وہ بلا ضرورت سکول سے چھٹی کرنا ممنوع ہونا ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے خاندان کی شادی سے لے کر مری جانے تک کے لیے چھٹی کرنا کبھی بلاضرورت تصور نہیں کیا تھا جبکہ یہاں سرکاری سکول سے چھٹی کی بالکل اجازت نہیں۔ آئے دن پولیس ہوائی اڈوں پر لوگوں کو روکتی ہے، جو باقاعدہ سکول کے دنوں میں بچوں سمیت چھٹیوں یہ جا رہے ہوتے ہیں۔ ناصرف مقدمہ درج ہوتا ہے بلکہ بھاری جرمانا بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔

ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ایک انتہائی پیچیده، مشکل اور مہنگا مرحلہ ہے، جس کا کوئی بھی حصہ چھوڑا نہیں جاسکتا۔ اس سلسلے میں مفت مشورے کافی مہنگے پڑ سکتے ہیں۔ تھیوری اور پریکٹیکل کی باقاعدہ کلاسیں لینا ضروری ہے اور یہ مکمل کرنے کے بعد ہی امتحان دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کے شارٹ کٹ کا مشورہ دینے والا قطعاً آپ کا ہمدرد نہیں ہوسکتا۔


نوکری کے لیے درخواست دیتے ہوئے کسی قسم کا جھوٹ بولنا آپ کے پورے پروفیشنل کیریئر کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ وزٹ ویزا پر جرمنی آنے کے بعد معینہ مدت سے بعید رہنا ہمیشہ کے لیے ویزا ملنے کے حق کو خیرباد کہنے کے مترادف ہے۔ کچھ نہیں ہوتا اتنا تو چلتا ہے کہنے والوں سے آپ بعد میں کوئی ازالہ تو کروانے سے رہے۔

اسی طرح روزمرہ زندگی کے امور جیسے ہمیشہ ٹکٹ خرید کر بس يا ٹرام میں سفر کرنا، خاموشی کے اوقات کا خیال رکھنا، ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھنا، ٹریفک قوانین کے مطابق چلنا وغیره اخلاقی فرض تو ہیں ہی مگر قانون شکنی کی صورت میں جرمانہ اور ریکارڈ خراب کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ جرمانہ یا پولیس کی تنبیہ ایک انفرادی نتیجہ ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کو قانون شکنی کا مشورہ دیتے ہیں اور ایسا کرنے میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں تو شاید گنے چنے مواقع پر واقعی کچھ نہ ہوا ہو، مگر جب کچھ ہوتا ہے تو آپ اپنے ساتھ ساتھ صنم کو بھی ڈبو دیتے ہیں۔


آپ کے ساتھ ہر پاکستانی کے بارے میں رائے قائم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے دورس نتائج سامنے آتے ہیں۔ والدین اور رشتے داروں کے لیے وزٹ ویزا ملنا نا ممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شادی کے بعد ساتھی کے لیے فیملی ری یونین ویزا حاصل کرنے کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہو رہا ہے۔ کہیں گھر ڈھونڈنا اور کہیں مختلف دفاتر سے کام کروانا مشکل ہے۔

کسی بھی قانون شکنی کی صورت میں کسی کو یہ یاد نہیں رہے گا کہ فلاں صاحب اور فلان صاحبہ نے کیا کیا تھا مگر یہ ضرور یاد رہے گا کہ کسی پاکستانی نے کیا کیا تھا۔ نئی نسل اور بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے مل کر ہم سب کا تعارف کافی حد تک مثبت کیا ہے اور ہم سب کی کوشش سے مزید بہتر بھی ہو سکتا ہے۔


اگر غیر رسمی زبان میں خلاصہ بیان کرنے کی جسارت کروں تو اتنا ہی کہوں گی کہ اگر کوئی چیتا آپ کو بھی فخریہ قانون شکنی کر کے چیتا بننے کا مشورہ دے تو کوشش کریں کہ انسان رہنے پہ ہی اکتفا کریں۔ غیر مستند ذریعے سے حاصل کی گئی معلومات میں خاص خیال رکھیں کیونکہ کبھی کبھی ہمارے کچھ ہمدرد ہمیں درد دے جاتے ہیں۔ ذمہ دار شہری ہونا ڈرپوک ہونے کی نشانی نہیں بلکہ اپنے ملک اور تہذیب کی عکاسی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔