جینریشن زی: پسماندہ یا ترقی یافتہ

اگر اس وقت آپ کی عمر پچاس اور آپ کے بچے بیس سے پچیس سال کی عمر کے ہیں تو یقیناً دونوں نسلوں کے فکری رویے، نظریات اور رجحانات میں تال میل نہ ہونا تعجب کی بات نہیں۔ درحقیقت یہی جینریشن گیپ کہلاتا ہے۔

جینریشن زی: پسماندہ یا ترقی یافتہ
جینریشن زی: پسماندہ یا ترقی یافتہ
user

Dw

اسّی کی دہائی ہمارے بچپن کا دور تھا، جب مشترکہ خاندانی نظام کارواج تھا اورایک کمانے والے پر پورا کنبہ انحصار کرتا تھا۔ انفرادی خاندان خال خال ہی نظر آتے تھے۔ بزرگوں کی بات حتمی سمجھی جاتی تھی اور کسی قسم کے اختلاف کو بد تہذیبی میں شمار کیا جاتا تھا۔

گلی کے بچوں کا سائیکلنگ کرنا، آنکھ مچولی، پٹھو گرم، کھوکھو اور پکڑم پکڑ آئی کھیلنا پسندیدہ تفریحات ہوا کرتی تھیں۔ کسی گھر میں ٹیلی فون اور رنگین ٹی وی ہونا ان کے صاحب استطاعت ہونے کو ظاہر کرتا تھا۔ گھر کا کھانا مزے لے کر کھایا جاتا تھا اور اس میں پسند ناپسند کی گنجائش موجود نہ تھی۔ آؤٹنگ، ہوٹلنگ، سینما جانا عیاشی ہوا کرتی تھی اور ہینگ آؤٹ، کا لفظ ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ زندہ رہنے یا بقا کے مسائل اس وقت بھی تھے لیکن نوعیت ایسی خوفناک نہ تھی۔


کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ماضی کی ان باتوں سے ہمارے بچے کوئی تعلق محسوس کر پاتے ہیں؟ غالباً نہیں۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ ملینیئم کے بعد پوری دنیا میں ہی بدل چکے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں 1997ء سے 2012ء کے عشرے میں پیدا ہونے والی نسل کو محققین نے جینریشن زی کا نام دیا۔ جبکہ ٹیکنالوجی چونکہ ذرا دیر سے آئی تو یہاں یہ نسل 2000ء کے بعد کی ہے۔

جینریشن زی کئی حوالوں سے اداس نسل کہی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل دور کا انقلاب، مالیاتی عدم استحکام، اقتصادی عدم توازن، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بگڑتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیاں اور کوڈ 19 کی مہلک وبا جیسےحالات میں پروان چڑھتی ہوئی اس نسل کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی رجحانات اپنی پچھلی والی نسل سے یکسر مختلف ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ نسل ایک ایسے دور میں اپنی عمر کی منزلیں طے کر رہی ہے جب ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ اس کے باوجود جینریشن زی کی خصوصیات مختلف ممالک کے مختلف حالات کے مطابق ہیں اور اسے جرنلائز کرنا درست نہیں۔


ملینیئلز یا جینریشن وائی جو جینریشن زی سے پہلے کی نسل کہلائی جاتی ہے اور جنہوں نے ڈیجیٹل انقلاب اپنے سامنے رونما ہوتے دیکھا لیکن انہیں وہ دور بھی یاد ہے جب وہ ان ڈیجیٹل آلات کے بنا بھی اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزار رہے تھے۔ جبکہ جینریشن زی کے لیے سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، وائی فائی، اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ کے بغیر دنیا کا تصور ناممکن ہے۔

جہاں اس نسل میں صبر، توجہ میں کمی، مختصر المدت دلچسپیاں، غصہ اور اینٹی سوشل رویے معمول کی باتیں۔ وہیں جینریشن زی کو زیادہ لبرل، سیکیولر اور روشن خیال بھی تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں نا صرف اپنی شناخت کا ادراک ہے بلکہ جن طبقات کے ساتھ پچھلی نسلیں ہتک آمیز رویوں کا مظاہرہ کرتی تھیں ان کے حق لیے اس نسل نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ مثلاً امریکہ میں بلیک لائف میٹرز اور ٹرانس جینڈر کے حقوق قابل ذکر ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے مسائل اورایل جی بی ٹی کے حقوق اس نسل کو ازبر ہیں اور یہ ان معاملات پر سیر حاصل گفتگو کرنے میں مہارت بھیرکھتے ہیں۔ آن لائن معلومات ہونے کے باعث انہیں بہت سے پہلوؤں کا بخوبی علم ہے۔


ترقی یافتہ ممالک میں زی نسل کے افراد اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت کے قطعی حامی نہیں اور نہ ہی دوسروں کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑانا پسند کرتے ہیں۔ اس کی غالباٍ وجہ اس نسل کا سیلف فوکسڈ ہونا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ انہیں اپنے گھر والوں، دوستوں یا آس پاس بسنے والوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اس پہلو پر ان کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ اپنی بقا، ترقی اور خوشی کی ذمہ دار چونکہ وہ خود ہیں تو سب سے پہلےانہیں خود پر توجہ دینی ضروری ہے۔

دنیا کی اکثریت جینریشن زی شادی کے انسٹیٹوٹ سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے۔ شادی کرنا اس نسل کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کے برعکس انہیں اپنی شخصی آزادی اور کیریئر بنانے میں دلچسپی کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور سے کوڈ 19 کے بعد جینریشن زی نے ورک فرام ہوم، آن لائن شاپنگ اور فوڈ ڈیلیوری کو باآسانی قبول کیا ہے اور سب سے بڑے کنزیومرز بھی اسی نسل کے افراد ہیں۔


حالات اور بقا کے مسائل کے پیش نظر جینریشن زی خود کو ایک بند گلی میں بھی محسوس کرتی ہے، جس کی وجہ سے یہ نسل اسٹریس، ڈپریشن اور متعدد نفسیاتی الجھنوں اور عارضوں کا شکار بھی سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں جینریشن زی کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر پاکستان کی جینریشن زی کا موازنہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کیا جائے تو ملک کے اندر ہی اسی نسل سے تعلق رکھنے والے مختلف رجحانات ونظریات رکھنے والے طبقات ملیں گے۔

پاکستان کی خستہ حال معیشت اور بے روزگاری کے پیش نظر جینریشن زی بہت مایوسی اور کنفیوژن کا شکار ہےکیونکہ جب ریاست کی جانب سے تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو یہ نسل خود کو غیر محفوظ ہی تصور کرے گی۔ غربت کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تشدد اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔


پاکستان میں ریاستی سطح پر اس نسل کو کارآمد بنانے کے بجائے جاہلیت کی جانب دھکیلا گیا ہے۔ پاکستانی زی نسل کی اکثریت دوسروں کے مذہبی عقائد، روایات اور خاندانی معاملات میں نہ صرف ٹانگ اڑانا اپنا فرض سمجھتی ہے بلکہ کسی بھی قسم کے تشدد سے بھی گریز نہیں کرتی۔ جڑانوالہ واقعہ سے لے کر اسلام آباد کی سبزی منڈی میں محبت کی شادی کرنے پر بھائی کے ہاتھوں بہن کے قتل تک روز ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر اور گلوبل وارمنگ جیسے حساس موضوعات پر ہماری نوجوان نسل کی اکثریت کے خیالات بہت فرسودہ اور قدامت پسند ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس نسل کی دسترس میں اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی تو ہے لیکن ذہنی بلوغت اور شعور میں نہ صرف یہ نسل بلکہ اکثریتی پچھلی نسلیں بھی چودھویں صدی میں ہی بھٹک رہی ہیں۔

جبکہ دوسری جانب پاکستان میں جینریشن زی کا دوسرا اعلی طبقہ چند فیصد پر مشتمل ہے، جو نسبتاً تعلیم یافتہ، روشن خیال اور برسر روزگار ہے اور مالی طور پر مستحکم بھی۔ لیکن ان کے مسائل تقریباً وہی ہیں جیسے کہ دیگرممالک کی زی نسل کے ہیں۔ یعنی والدین اور بچوں کے درمیان دوری اور خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ میری دو چھوٹی بیٹیاں بھی اسی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی ساری الجھنوں، تحفظات اور سوالات نے مجھے اس نسل کو سمجھنے میں کافی مدد فراہم کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جینریشن زی اور پچھلی نسلوں کے درمیان اس گیپ یا خلا کو دور نہیں تو کم کس طرح کیا جائے؟


اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کو بہتر، مذہبی منافرت اور شدت پسندی پھیلانے سے اجتناب اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ علم شہریت (سوک سینس ) کی تعلیم کولازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب گھر کے ماحول کو بچوں کے لیے موزوں بنانا ضروری ہے۔ غالباً ہمیں اپنے دور کی اچھائیوں اور اعلی روایات کا رونا رونے کے بجائے نئی نسل کی بات سننے پر توجہ دینا ہوگا ورنہ یہ نسل والدین سے مزید دور ہوتی چلی جائے گی۔

ایک چھوٹی سی مثال: ہماری نسل کے بہت سے لوگ اکثر نئی موسیقی سننے سے گریز کرتے ہیں اور ماضی میں ہی اٹکے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کی پسند کی موسیقی، فلمیں اور ڈرامے ان کے ساتھ مل کر دیکھیں تو یقین جانیے ہم خود کو توانا اور زندگی سے بھرپور بھی محسوس کریں گے اور بچوں کے ساتھ ایک ربط بھی قائم ہوگا۔ جب ہم اپنے بچوں کی پسند کو ترجیح دیں گے تو یقیناً جلد یا بدیر وہ بھی ہماری پسند کو ضرور سراہیں گے۔


دوسری اہم بات ہمیں یہ سمجھنی چاہیے کہ جب تک ہم ان کے روزمرہ کے مسائل توجہ اور دلچسپی سے نہیں سنیں گے تب تک ہمیں نہ ان کی نفسیاتی الجھنوں کا اندازہ ہوگا نہ ہم انہیں مناسب مشورہ دے پائیں گے۔ گفتگو کےدروازے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہییں ۔ جینریشن چاہے ایکس، وائی، زی یا الفا ہو درحقیقت ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو وقت کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں اگر دو تین نسلوں کے درمیان خلا کو کم کرنا ہے تو پچھلی نسلوں کو نئی نسل سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں پہل کرنی ہو گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔