تعلیم ہماری ترجیح ہے ہی نہیں

اس میں دو رائے نہیں کہ ملک کی ترقی میں تعلیم کا کردار بنیادی ہے۔ اس لیے ہر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملک، اپنے نظام تعلیم کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

تعلیم ہماری ترجیح ہے ہی نہیں
تعلیم ہماری ترجیح ہے ہی نہیں
user

Dw

تعلیم کے ذریعے ہی کوئی قوم اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات، ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس موضوع پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے لیکن عملی طور پر صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

کچھ روز سے سوشل میڈیا پر انیس سو پینتالیس کے دور کا پانچویں جماعت کا سائنس کا پرچہ گردش کر رہا ہے، جو یقیناً قارئین کی نظر سے بھی گزرا ہو گا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ پرچہ درست ہے یعنی جعلی نہیں، حقیقی ہے تو ہمارے سامنے سوچنے، سمجھنے کے کئی زاویے کھولتا ہے۔ اس پرچے کو دیکھ کر بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محض رٹے کی بنیاد پر اسےحل کرنا ممکن نہیں اور سوالات کے پوچھنے کا انداز ایسا ہے، جو بچے کو ہر صورت میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس پرچے کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا درست ہو گا کہ قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کی سر پرستی میں چلنے والا نظام آج کے تعلیمی نظام سے ہزار گنا بہتر تھا۔ کیوں کہ وہ نظام، اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کی جانچ کرتا تھا، جب کہ موجودہ نظام، محض حافظے کی بنیاد پر کامیابی یا نا کامی کا فیصلہ کرتا ہے۔


اس نکتہ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ایک طبقہ آج بھی لارڈ میکالے کو تعلیمی نظام کی پستی کا ذمہ دار قرار دے کر خود بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی حد تک یہ مان بھی لیں کہ لارڈ میکالے کا ہمیں ذہنی غلام بنائے رکھنے کا اگر کوئی منصوبہ تھا بھی تو، اس ملک کے بننے کے بعد حالات کا تجزیہ اگر انصاف کے ساتھ کریں تو اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اپنے نظام تعلیم کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

اس وقت پاکستان کا تعلیمی نظام دنیا کے 195 ممالک میں سے 165ویں نمبر پہ ہے، جہاں بچے کو تین سال کی عمر میں سکول داخل کروا دیا جاتا ہے اور اس پہ رٹا سسٹم اور ہوم ورک کے نام پہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، پہلی جماعت کے بچے کے بیگ کا وزن اس کے اپنے مجموعی وزن سے زیادہ ہوتا ہے۔


دنیا میں تعلیمی نظام کی رینکنگ کرنے والا ادارہPISA (Program of international student assessment) ہے، جو ریاضی ، سائنس، انگلش وغیرہ کی بنیاد پہ بچوں کے تعلیمی حالات کا جائزہ لیتا ہے اور رینکنگ جاری کرتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں فن لینڈ مسلسل تین سال سے پہلی پوزیشن پر براجمان ہے اور دیگر میں جاپان کوریا، ہانگ کانگ اور سنگاپور کا نام شامل ہیں۔

فن لینڈ میں بچوں کا سکول سات سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے اور سکول کا روز کا دورانیہ چار سے پانچ گھنٹے پہ محیط ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے کم دورانیہ کا تعلیمی سال بھی فن لینڈ کا ہے، جو 190 دن کا ہوتا ہے۔ اتنے کم دورانیہ میں بھی اتنے اچھے نتائج کی آخر کیا وجہ ہے؟


فن لینڈ کے سکولوں میں ایک ہفتے میں چودہ سے تیس اسباق پڑھائے جاتے ہیں، جو ہر جماعت کے حساب سے ہوتے ہیں۔ چھوٹی جماعت کے طلبا کے لیے ان اسباق کی تعداد چودہ اور آٹھویں جماعت کو تیس اسباق تک پڑھائے جاتے ہیں۔ ہر پیریڈ کے بعد پندرہ منٹ کی بریک دی جاتی ہے اور بچوں کو کسی بھی قسم کا ہوم ورک نہیں دیا جاتا۔ بچوں کو تعلیم اس طریقے سے دی جاتی ہے کہ ان کی سوچنے کی صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے۔

پہلا تحریری امتحان بھی دس سال کی عمر کے بعد لیا جاتا ہے، وہ بھی پانچ مضامین میں ابتدائی دس سال کی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ سارے نظام تعلیم میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ پرائمری یا ہائی سکول ٹیچر کا بھی ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہونا ضروری ہے، جو کہ، بڑے سخت تحریری امتحان دے کر منتخب ہوتے ہیں۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ تمام امیدواروں میں اوسط دس فیصد ہی منتخب ہو پاتے ہیں۔ فن لینڈ کے معاشرے میں استاد کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں باقی تمام شعبوں سے کافی زیادہ بہ تر ہوتی ہیں۔


نوے فیصد سے زیادہ بچے سرکاری سکولز میں ہی پڑھتے ہیں، پرائیویٹ سکولز کے لیے بھی سرکاری سلیبس پڑھانا ضروری ہے۔ سکول میں بچوں کو ایک وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے اور ہر انیس طلبا کے لیے ایک استاد مقرر ہوتا ہے۔ ہر سکول میں ایک ماہر نفسیات اور ایک ڈاکٹر کا ہونا لازم ہے۔ ہر ایک استاد، ہر سال تبدیل نہیں ہوتا بلکہ وہی استاد ایک لمبے عرصے تک ان ہی طلباء کو پڑھاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ طالب علم سے بہتر تعلق بنا پاتا ہے اور ان کی کار کردگی نوٹ کرتا ہے اور ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہتا ہے

یہ ہماری قومی بیماری بن چکی ہے کہ کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکنا، کبھی اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرنا۔ ہمیشہ اپنے سے پہلے والوں کو مورد الزام ٹھہرانا اور ایسے بہانے تراشنا کہ بس دوسرے ہی ہماری تباہی کے ذمہ دار تھے، ورنہ اگر فلاں نے سازش نہ کی ہوتی تو ہم نے تو زمین و آسمان ایک کر دینا تھا۔ اس ملک کے تعلیمی پالیسی بنانے والے، تعلیمی نظام بنانے والے، پڑھانے والے تعلیمی انحطاط کے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ جب تک ہم اپنے گناہ کا اعتراف نہیں کرتے، اس وقت تک اس کی اصلاح ممکن نہیں۔۔۔


ہمارے ملک میں جہاں تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں وہاں سب سے کم بجٹ تعلیم کے لیے ہی رکھا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ملک میں مختلف اقسام کے تعلیمی نظام چل رہے ہیں۔ اگر ملک کا تعلیمی نظام بہتر کرنا ہے تو، تعلیم پر خرچ کرنا ہو گا اور اساتذہ کی تربیت اور بے جا کتابی بوجھ، رٹا سسٹم اور نقل سسٹم کو ختم کرناہو گا ۔ نئے سکول، کالج بنانے ہوں گے تعلیم کے معیار اور تحقیقی معیار کو بہتر بنانا ہو گا تا کہ ہم ایک اچھی، ہنر مند نسل پروان چڑھا سکیں جس سے دنیا میں ہمیں بھی کوئی با عزت مقام حاصل ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔