اگر یہ آٹھ سو انسان یورپ کے ساحل پر اتر جاتے تو؟

جب سے یونان کے ساحل کے قریب لگ بھگ سوا دو سو پاکستانیوں سمیت تقریباً آٹھ سو غیر قانونی تارکینِ وطن سے لدی لانچ ڈوبی ہے پاکستان کی میڈیا اور گلی کے تھڑوں پر متعدد سوالات اٹھائے اور بٹھائے جا رہے ہیں۔

اگر یہ آٹھ سو انسان یورپ کے ساحل پر اتر جاتے تو؟
اگر یہ آٹھ سو انسان یورپ کے ساحل پر اتر جاتے تو؟
user

Dw

اس ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل ماحول میں اگر گورننس کی ابتری کا شکوہ نمایاں ہے تو وہیں یہ کھوجنے کی بھی کوشش ہو رہی ہے کہ اس کشتی میں سوار لگ بھگ سب کے سب پاکستانی وسطی و شمالی پنجاب اور ان سے جڑے کشمیری اضلاع سے کیوں تھے؟ اگر تو یہ غربت و بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہو کے ہر قیمت پر یورپ پہنچنا چاہتے تھے تو پھر اس کشتی میں جنوبی پنجاب کے باسیوں، بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کی تعداد زیادہ ہونا چاہیے تھی۔

ایسا کیوں ہے کہ ترکی، یونان اور لیبیا سے اس سال کے پہلے پانچ مہینوں میں جو لگ بھگ پندرہ ہزار تارکینِ وطن ڈی پورٹ ہوئے ان میں بھی نوے فیصد گوجرانوالہ اور پنڈی ڈویژن کے رہائشی ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں ڈویژن پاکستان کا صنعتی قلب ہیں۔ یہاں متوسط طبقہ کراچی کو چھوڑ کے پاکستان کے دیگرعلاقوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے اور جی ٹی روڈ کی صنعتی پٹی پر ہونے کے سبب مزدوری کے مواقع بھی انہی دو ڈویژنز میں سب سے زیادہ ہیں۔


پھر بھی ایسا کیوں ہے کہ یہاں کے نوجوان اسمگلروں کو پچیس تا بتیس لاکھ روپے فی کس دے کے ہر قیمت پر یورپ میں اترنا چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے سینیئرز سے سن چکے ہیں کہ کس طرح سرحدی محافظوں، اغوا کاروں، بھوک، پیاس، موسم کی سختی، بلیک میلر اسمگلرز اور سفاک سمندر کی شکل میں موت منہ کھولے کھڑی رہتی ہے۔

انہیں کسی نہ کسی نے ضرور بتایا ہو گا کہ بحیرہ روم کا آدم خور پانی پچھلے دس برس میں تیس ہزار انسان نگل چکا ہے۔ سو میں سے دس ہی دوسرے کنارے تک پہنچ پاتے ہیں۔ باقی نامراد یا پھر لاشوں کی صورت لوٹتے ہیں یا برسوں کی قید بھگتنے کے بعد ڈی پورٹ ہوتے ہیں۔


یہ سب سننے اور دیکھنے کے بعد بھی جانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ ہیومن اسمگلرز اور ان کے سرطان کی طرح پھیلے ہوئے ایجنٹوں کے نیٹ ورک کی پکڑ دھکڑ کے باوجود ان کے کاروبار کو کوئی گھاٹا درپیش کیوں نہیں؟ ان کی پشت پر جن جن کا ہاتھ ہے انہیں بھی آنے والے کل کے بارے میں کوئی ٹینشن کیوں نہیں؟

وسطی و شمالی پنجاب کی تو روکی سوکھی بھی پاکستان کے دیگر پسماندہ علاقوں کی نسبت بہتر ہے۔ پھر بھی یہ لڑکے بالے اپنا گھر، زمین، ماں کا زیور، باپ کی جمع پونجی اور واقف کاروں سے قرض ادھار لے کے ایسے سفر پر کیوں روانہ ہوتے ہیں، جس میں کامیابی کا تناسب مرنے یا پکڑے جانے کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔


اس کہانی کے ڈانڈے لگ بھگ ایک سو دس برس پر پھیلے ہوئے ہیں، جب پہلی عالمی جنگ کے موقع پر لاکھوں انسانوں کو توپ کا چارہ بنانے کی خواہش مند سرکارِ برطانیہ نے وسطی اور شمالی پنجاب کے بڑے اور چھوٹے جاگیرداروں، علاقہ معززین اور نمبرداروں کو پابند کیا کہ اگر وہ سرکار بہادر کی خوشنودی، خطاب، خلعت اور مربعے چاہتے ہیں تو یورپ کے محاذ پر بھیجنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں جوان بھرتی کروائیں۔

چنانچہ جگہ جگہ اشتہار لگ گئے اور خبر پھیل گئی کہ فوج میں بھرتی ہوں، تنخواہ، راشن اور وردی کے ساتھ ساتھ سمندر پار کی سیر بھی مفت۔ جب ان نئے نئے وردی پوشوں نے پہلی بار یورپ دیکھا اور ان کی آنکھیں خیرہ ہوئیں۔ تب سے یہ چمک نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی۔ دوسری عالمی جنگ میں بھرتی کا مرحلہ پہلی جنگ کی نسبت زیادہ آسانی سے طے پا گیا۔


دوسرا بڑا موڑ سن انیس سو ساٹھ کے عشرے میں آیا جب سندھ تاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے مابین چھ دریاؤں کا بٹوارا ہو گیا اور عالمی بینک اور امریکہ کی امداد سے دو بڑے ڈیموں میں سے پہلا ڈیم منگلا بنا۔ اس کی تعمیر اور اس کی جھیل بننے کے نتیجے میں لگ بھگ ایک لاکھ نفوس بےگھر ہوئے۔ ان میں سے بہت سوں کو برطانیہ نے کھینچ لیا۔ کیونکہ اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے کام میں افرادی قوت کی قلت کا سامنا تھا۔

چنانچہ پنڈی، گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، میرپور وغیرہ سے بے روزگار یا ناآسودہ نوجوان برطانوی مڈ لینڈز کی ٹیکسٹائیل فیکٹریوں، کوئلے کی کانوں، اسٹیل سازی اور تعمیراتی منصوبوں اور صنعتوں میں کام کی تلاش میں جوق در جوق ہیتھرو پر اترنے لگے۔ وہیں آن آرائیول ویزہ بھی لگ جاتا اور چند ہی ماہ میں رائل پوسٹ آفس کے توسط سے شہریت کی درخواست بھی دی جا سکتی تھی۔


رفتہ رفتہ وسطی و شمالی پنجاب اور کشمیر کی معیشت میں یورپ، بالخصوص برطانیہ سے آنے والا پیسہ کچے مکانوں کو پکے گھروں میں اور گھروں کو حویلیوں میں بدلنے لگا۔ تارکینِ وطن اپنے ساتھ یورپ کی کچھ حقیقی اور کچھ مبالغہ آمیز داستانیں بھی ساتھ لاتے۔ ان کی گفتگو بالغ نوجوانوں کے خوابوں کے لیے زرخیز کھیتی ثابت ہوتی۔ یوں اگلی نسل میں بھی خوشحالی بذریعہ نقل مکانی کی جوت جگا دیتی۔

جب یورپ کو ان کارکنوں کی ضرورت نہ رہی تو اس نے اپنے دروازے رفتہ رفتہ بند کرنے شروع کر دیے۔ مگر جو لوگ پہنچ چکے تھے ان کی داستانوں کے سحر میں مبتلا نوجوان ان پابندیوں کو خاطر میں لانے اور مقامی طور پر ہی اپنی زندگی تعمیر کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اوپر سے گورننس کی روز بروز ابتر ہوتی حالت، نوکریوں کی نیلامی و سفارش، برادری ازم، نجی شعبے کی استحصالی فضا، سرکاری صحت منصوبوں کی زبوں حالی، تعلیم کی بے وقعتی اور امن و امان کی پتلی ہوتی حالت نے رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیرنا شروع کر دیا۔


حکمران طبقے نے ان حالات کو سنبھالنے کے بجائے اپنی مراعات کے اردگرد کی باڑھیں اونچی اونچی دیواروں میں بدلنی شروع کر دیں۔ جب ریاست نفسا نفسی میں مبتلا ہو جائے تو رعیت میں یہ وائرس پھیلنے کی رفتار چار گنا ہو جاتی ہے۔ ان سوالوں کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ پاکستان کو پچھلے ستر برس میں امریکہ سے جو ستر ارب ڈالر ملے وہ کہاں کہاں لگے۔ پاکستان کا قرضہ اگر آج سوا سو بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے تو یہ قرضہ کس نے کیوں کب لیا اور اس میں سے کتنی رقم تعلیم، صحت، چھت اور روزگار کی فراہمی پر لگی؟

اور اگر نہیں لگی تو اس قرضے کا سالانہ پچیس ارب ڈالر سود اور قسط پہلے سے ادھ موئے بیس کروڑ سے زائد انسان بجلی، پانی، گیس، پٹرول، مہنگے علاج، مہنگی تعلیم اور ہر موڑ پر رشوت کس خوشی میں بھگت رہے ہیں۔ جبکہ ریاست آج بھی دوست ممالک اور عالمی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہو اور ہر سال روزگار کی منڈی میں بیس لاکھ تازہ نوجوانوں کے اضافے سے کیسے نپٹا جائے؟


پہلے ریاست کی جانب سے امید افزائی پر عام آدمی کو کچھ نہ کچھ یقین آ جاتا تھا۔ اب تو ایک ادارے کو دوسرے ادارے پر یقین نہیں۔ چنانچہ جس عام آبادی کو آگے صرف دیوار دکھائی دے رہی ہے وہ بھلا کیسے ریاست، حکومت اور ان کے بے روح و بے معنی و لایعنی وعدوں پر اعتبار کرے۔ چنانچہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق آٹھ لاکھ تیس ہزار ہنرمند اور کوالیفائیڈ پاکستنانیوں نے دو ہزار بائیس میں یہ ملک چھوڑ دیا۔ یہ تعداد دو ہزار اکیس میں ملک چھوڑنے والوں کے مقابلے میں ایک سو نوے فیصد زائد ہے۔

صرف رواں سال کے پہلے پانچ ماہ میں تین لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ جبکہ غیر قانونی طور پر کتنے پاکستانی گزشتہ ڈیڑھ برس میں چلے گئے یا جا رہے ہیں؟ اسمگلروں، ان سے صرفِ نظر کرنے والے حکام اور خود یورپ کا رخ کرنے والے نوجوانوں کے گھر والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اگر یونان کے ساحل سے پچاس میل پرے یہ آٹھ سو انسان ڈوبنے کے بجائے بخیریت اٹلی کے ساحل پر اتر جاتے تو شاید کسی سرکاری ادارے کو پتہ بھی نہ چلتا کہ اس لانچ میں کتنے لوگ تھے۔


جبکہ اب ان کے گھر والے سرکار کے سامنے رو رو کے دہائی دے رہے ہیں کہ ایف آئی اے جیسے ادارے اس طرح کے المیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کرتے۔ لیکن یہی گھر والے اس لانچ کے کسی یورپی ساحل پر پہنچنے کی اطلاع حکومت کے کسی متعلقہ ادارے کو دینے کے بجائے آپس میں مٹھائیاں بانٹ اور کھا رہے ہوتے اور مبارکیاں وصول کر رہے ہوتے۔

آج بھی اگر کوئی عدالت لواحقین سے کہے کہ آگے آؤ اور ان انسانی اسمگلرز کے نام بتاؤ اور انہیں شناخت پریڈ میں شناخت کرو جنہوں نے تم سے تمہارے لختِ جگر چھین لیے۔ یقین جانئے شاید ہی کوئی آگے بڑھ کے کسی کو پہچانے اور پھر بعد میں بھی اپنے بیان پر بھی قائم رہے۔ اسی لیے کم ازکم میں نے آج تک کسی ہیومن اسمگلر کو عمر قید کی سزا پوری بھگتتے نہ دیکھا نہ سنا۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔