زرا سنبھل کہ نازک ہے بہت کام

کراچی میں رہنے والے افغان شہریوں میں لازمی قانونی دستاویزات کے بغیر رہنے والے بھی کم نہیں۔ آج کل ان کے سر پر ملک بدری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس موقع پر حکومت کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟

زرا سنبھل کہ نازک ہے بہت کام
زرا سنبھل کہ نازک ہے بہت کام
user

Dw

کراچی کی حالیہ بدامنی اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کو اگر 32 سال قبل کے تناظر ميں ديکھا جائے تو یہ واضح طور پر سمجھ ميں آتا ہے کہ ڈرگ مافيا اور غير قانونی اسلحے کے تاجروں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے روشنيوں کے شہر کو موت، لسانی، فرقہ وارانہ، مذہبی کشیدگی اور عدم برداشت والے شہر ميں تبديل کر ديا تھا۔ شہر کو اس نہج پر لانے میں کچھ مفاد پرست سیاستدان بھی شامل تھے۔

شہر کی بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری ہميشہ افغان مہاجرين پر ڈالی جاتی رہی۔ سياسی قائدين کی جانب سے کلاشنکوف اور ملک بھر میں ہيروئن کے استعمال میں اضافے کا الزام بھی افغان شہریوں کے سر تھوپ دیا گیا اور یہ سیاست دان خود بری الذمہ ہو گئے۔


افغانستان پر سابق سوویت یونین کےحملہ کے بعد افغان باشندوں کی بڑی تعداد کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ اس کے اطراف کے علاقوں میں آباد ہوگئی تھی۔ یہیں پرالاآصف اسکوائر بھی واقع ہے۔ مشہور ومعروف باڑہ مارکیٹ الاآصف اسکوائر کے عقب میں زیرزمین قائم تھی۔ اس مارکیٹ میں زیادہ تر کاروبار کرنے والے افغان ہی تھے۔ اس مارکیٹ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں پر روز مرہ استعمال کے لیے اسمگلنگ کا سامان اور منشیات وغیرہ سب دستیاب ہے۔

چنانچہ پولیس نے 12 دسمبر 1986ء کو سہراب گوٹھ کےاس علاقے میں آباد اسلحہ اور منشیات کے مبینہ ڈیلروں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا کیونکہ انتظامیہ کا خیال تھا کہ سہراب گوٹھ کا یہ علاقہ سپرہائی وے سے متصل ہے، جس کی وجہ سے آئے دن مظاہروں اورجھگڑوں کی وجہ سے کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی یہ شاہراہ بند ہوجاتی ہے۔ پولیس کو اندازہ نہیں تھا کہ اس علاقے میں موجود اسلحہ اورگولہ بارود کے اسمگلرز اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ مسلح مزاحمت کرکے پولیس کو پسپا کردیں گے۔


صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے وزیراعلٰی غوث علی شاہ اورسندھ کے گورنرمرحوم لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جہانداد خان نے کورکمانڈر کراچی سے مدد کی درخواست کی۔ فوری طور سے فوجی قافلے ملیرکینٹ سے سہراب گوٹھ پہنچ گئے۔ سہراب گوٹھ کے رہنے والے جب صبح بیدارہوئے تومعلوم ہوا کہ فوج نے پورا علاقہ گھیرے میں لے کر یہاں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ اس کے بعد بلڈوزرں کی مدد سے اس علاقے کی تمام غیر قانونی آبادیوں کو مسمار کردیا گیا۔

فوج کی نگرانی ميں ہونے والے آپريشن کے خلاف کسی نے مزاحمت نہیں کی مگر صوبے کی دونماياں لسانی اکائيوں کے درميان کشیدگی کی فضا صاف طور پر محسوس کی جاری تھی۔ فوج اورسول انتظامیہ نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس آپریشن کا اتنا شدید ردعمل علی گڑھ اور قصبہ کالونی پر حملے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ 16دسمبر کو علی گڑھ اور قصبہ کالونی میں آگ وخون کی ہولی کھیلی گئی اور کئی گھنٹوں تک پولیس، فوج اورسول انتظامیہ تاریخ کے بدترین لسانی فسادات، قتل وغارت گری کو نہ روک سکی۔


کراچی میں ایک بار پھر سہراب گوٹھ اور اطراف میں آپریشن کا فیصلہ ہوگیا ہے تاہم اب حالات مختلف ہیں۔ افغان آبادی کی تیسری نسل جوان ہو چکی ہے، جس کا افغانستان سے کوئی تعلق یا ناطہ نہیں رہا۔ افغان باشندوں نے شہر میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور مختلف قسم کے کاروباروں کے مالک ہیں۔ افغان باشندے اب سوسائٹی کا حصہ بن چکے ہیں، جن کی بے دخلی کسی طورآسان ثابت نہیں ہو گی اور نا ہی پاکستان کے معاشرے میں رچ بس جانے والے ان شہریوں کو ملک بدری کے خوف میں مبتلا کرنے کا کوئی جواز موجود ہے۔

اس طرح اچانک کسی بھی آبادی کے خلاف کوئی آپریشن کیا جائے تو اس کا ردعمل ضرور سامنے آتا ہے اور اکثر یہ ردعمل شدید ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کو ملک سے نکالنے کے لیے من گھڑت الزامات لگانا یا ان کے خلاف ذہن سازی کرنا معقول نہیں۔ کیا پاکستان میں آباد تمام اقوام دودھ کی دھلی ہوئی ہیں؟ کیا پاکستانی شہری اسلحہ کا کاروبار نہیں کرتے؟ کیا پاکستانی میں آباد دیگر اقوام جرائم میں ملوث نہیں؟ ہرقوم میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ شہر میں ہر برائی اور خرابی کا ذمہ دار افغان شہری نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانکے۔


متعلقہ سرکاری اہلکار رہائشی اجازت نامے کے بغیر رہنے والے افغان شہریوں کی واپسی منظم حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار انجام دیں۔ دوسری جانب بڑی تعداد میں افغان باشندوں کو قانونی طریقے سے ریگولرائز کرکے پاکستان میں مزید قیام کی اجازت بھی دینا چاہیے۔ افغان باشندوں کی جبری واپسی سے افراتفری اوربدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ کراچی کے موجودہ حالات میں کوئی بھی جرائم پیشہ گروہ افغان شہریوں کو بدنام کرنے کے لیے شہر کے حالات خراب کر سکتا ہے اور اس سے صرف نفرت ہی بڑھے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔