فلپائن میں جنسی رضا مندی کے لیے کم سے کم عمر اب سولہ برس

فلپائن میں تقریباﹰ ایک صدی پرانے قانون میں ترمیم کر کے جنسی تعلقات کے لیے رضا مندی کی کم سے کم عمر بارہ برس سے بڑھا کر سولہ برس کر دی گئی ہے۔ ترمیم سے نوجوانوں کو جنسی زیادتیوں سے بچانے میں مدد ملے گی

فلپائن میں جنسی رضا مندی کے لیے کم سے کم عمر اب سولہ برس
فلپائن میں جنسی رضا مندی کے لیے کم سے کم عمر اب سولہ برس
user

Dw

منیلا سے سات مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی حکومت کی طرف سے اس قانونی ترمیم پر انسانی حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اور بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف سرگرم اداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اب جنوبی مشرقی ایشیا کے اس ملک میں نوجوانوں کو ریپ اور جنسی استحصال سے بچانے میں مدد ملے گی۔

جنسی رضا مندی کے لیے سب سے کم عمر والے ممالک میں سے ایک

فلپائن کیتھولک مسیحی اکثریت والا ایک ایسا ایشیائی ملک ہے، جو دنیا کی ان ریاستوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں اب تک جنسی تعلق کے قیام کے لیے قانونی رضا مندی کے حوالے سے انتہائی کم عمر والا قانون نافذ تھا۔ اس قانون کے تحت 12 سال تک کی عمر کے مقامی لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی یہ اجازت تھی کہ اگر وہ چاہیں تو بالغ انسانوں کے ساتھ جنسی رابطے قائم کر سکتے تھے۔


ماہرین کے مطابق یہی قانون اس امر کی وجہ بھی تھا کہ فلپائن میں نہ صرف 12 سال سے زائد عمر کے لڑکے لڑکیاں کسی بھی بالغ انسان سے جسمانی تعلق قائم کر سکتے تھے اور اسی لیے اس ملک میں بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی مقاصد کے لیے سیاحت کا رجحان بھی واضح تھا۔

اب زیادہ سے زیادہ سزا چالیس سال قید

منیلا حکومت نے جس قانون میں ترمیم کی ہے اور جس پر ملکی صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے جمعہ چار مارچ کو دستخط بھی کر دیے تھے، اس کا اعلان آج پیر سات مارچ کو کیا گیا۔ اس ترمیم شدہ قانون کے مطابق اب 16 برس سے کم عمر کے کسی بھی لڑکے یا لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا سنگین جرم ہو گا اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 40 برس تک قید ہو سکتی ہے۔


اسی قانونی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے ٹین ایجر جوڑوں کو آئندہ بھی استثناء حاصل رہے گا، جن کے مابین جنسی تعلق باہمی رضا مندی سے قائم ہوا ہو اور جن کے درمیان عمر کا فرق تین سال سے زیادہ نہ ہو۔

یونیسیف کا موقف

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کی فلپائن شاخ کی بچوں کے تحفظ سے متعلقہ امور کی ماہر مارگریٹا آردیویلا کا کہنا ہے، ''اس ترمیم شدہ قانون کے ساتھ اب ہمارے ملک میں بچوں کا جنسی جرائم اور جنسی تشدد سے تحفظ آسان ہو جائے گا، چاہے ایسا کوئی بھی تعلق آن لائن رابطوں سے شروع ہوا ہو یا بالمشافہ ملاقات سے۔‘‘


انہوں نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ فلپائن میں ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ مؤثر طور پر یہ طے کر دیا گیا ہے کہ کس نوعیت کا جنسی تعلق کن حالات میں قانوناﹰ کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کا ریپ تصور کیا جائے گا۔

1930ء سے نافذ چلا آ رہا قانون

منیلا حکومت نے جس ملکی قانون میں ترمیم کی ہے، وہ 1930ء سے نافذ چلا آ رہا تھا۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیمیں طویل عرصے سے یہ کہتی چلی آ رہی تھیں کہ جنسی تعلق کے لیے رضا مندی کی 12 سال کی کم سے کم عمر کسی بھی طور قابل فہم یا قابل قبول نہیں تھی۔


ماضی میں 12 سال کی عمر کی یہ حد اس لیے بھی تنقید کی زد میں تھی کہ ریپ یا جنسی استحصال کے نتیجے میں حاملہ ہو جانے والی لڑکیوں کو سماجی دباؤ کے باعث اکثر اسقاط حمل بھی نہیں کروانے دیا جاتا تھا، جس کا ایک اہم سبب ملک کی اکثریتی آبادی کے کیتھولک مسیحی عقائد بھی تھے۔ ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اس قانونی ترمیم کی منظوری گزشتہ سال دسمبر میں ہی دے دی تھی۔

فلپائن، آن لائن چائلڈ سیکس کا بڑا عالمی مرکز

فلپائن کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس ملک کی آبادی کی اکثریت غربت کا شکار ہے اور عالمی سطح یہ ملک بچوں سے آن لائن سیکس کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ وہاں بچوں کا ریپ اور بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات بھی عام ہیں۔


اس ملک میں بچوں کا جنسی استحصال اتنا زیادہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہاں ہر روز 10 سے لے کر 19 برس تک کی عمر کی تقریباﹰ 500 لڑکیاں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

ملکی حکومت کے تعاون سے یونیسیف کی طرف سے 2015ء میں مکمل کیے گئے ایک ملک گیر مطالعے سے پتہ چلا تھا کہ فلپائن میں 13 سے لے کر 17 برس تک کی عمر کے ہر پانچویں بچے کو جنسی تشدد کا سامنا رہا تھا اور ہر 25 بچوں میں سے ایک کو بچپن ہی میں ریپ بھی کر دیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔