مغلیہ طرز تعمیر آج کی ضرورت

دور حاضر کا جدید انفراسٹرکچر گرمی کی حدت کو کم کرنے میں تقریباً نا کام ہو چکا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مغلوں کی طرز کے تعمیراتی شاہکار بنائے جائیں، جو ماحول دوست ہوں۔

مغلیہ طرز تعمیر آج کی ضرورت
مغلیہ طرز تعمیر آج کی ضرورت
user

Dw

سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود بھی مغل آرٹ اور فنِ تعمیر آج بھی ہمیں کسی نہ کسی انداز میں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے- کیا ایسی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے اور بے ہنگم موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد بھی ان عمارات اور تقافتی ورثے کی رونق ماند نہیں پڑی۔

مغلیہ آرکیٹیکچر نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے اورعوام الناس کی جمالیاتی حسن کی تسکین کا منبع ہے۔ عصر حاضر میں مغل دور میں تعمیر ہونے والی تاریخی عمارات کی بناوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اسی طرز کا مٹیریل استعمال کرکے اپنی عمارات کو مضبوط اور موسمی سختیوں سے بالاتر بنا سکتے ہیں۔


تعمیرات کے ضمن میں کئی زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے یعنی دنیا کے سرد خطوں میں تعمیرات اسی مناسبت سے ڈیزائن کی جاتی ہے جبکہ گرم مقامات کی تعمیرات میں اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ بنیادی ڈھانچہ اس طرز کا ہو کہ وہ گرمیوں میں بھی ٹھنڈا رہے۔

دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے قہر ڈھا دیا ہے۔ جنگلوں میں لگنے والی آگ جنگلی حیات کو بھسم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہی۔ وہ ممالک جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرتا تھا اب وہاں پارہ 43 ڈگری کی حدود کو چھو رہا ہے۔ سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس بڑھتے درجہ حرارت سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا نیز دنیا کے کئی حصوں میں درجہ حرارت 52 ڈگری تک جانے سے وہاں زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے گا۔


انسان کوئی روبوٹ نہیں جو گرمی کی حدت کو برداشت کریں۔ لہذا سہل ترین طریقہ ایئر کنڈیشنر ہے۔ یہ اے سی بہت توانائی سے چلتے ہیں۔ گرم گیسوں کے اخراج سے موسم میں شدت اور قطبی برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔

غریب ممالک میں اے سی ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چونکہ ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کے وسائل کم ہوتے ہیں اس لیے وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ واٹر ایمرجنسی کے تحت خوراک کی پیداوار سب سے زیادہ متاثر ہو گی، جو قحط کا بگل بجائے گی۔


اسی خطرے کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ تعمیرات میں ایسے اہداف اپنائیں جو ماحول دوست ہوں۔ ماحول دشمن عناصر جیسا کہ کنکریٹ جو الٹراماڈرن تعمیرات کا اہم جز ہے لیکن وہ کاربن کے اخراج میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے گرمی بڑی شدت سے اور جھلسا دینے والی محسوس ہوتی ہے گویا کہ دم گھٹا جا رہا ہو۔ 16 سے 18 صدی تک مغلوں کا ہندوستان پر بہت اثر تھا۔ یہ اثر فن تعمیر کی منظم صورت میں اب بھی باقی ہے۔

مغلوں کے 300 سالہ دور حکومت میں مقامی ثقافتوں کے تئیں ان کا رویہ مختلف تھا۔ گنبد، مینار، خوابگاہیں، محرابی دروازے، حمام، فوجی عمارات، آئینہ کا پچیدہ کام، برج، خفیہ راستے، دیوان، زیورات کا بےدریغ استعمال مغلیہ طرز کی خصوصیات ہیں۔ انہوں نے ایسے باغات بنوائے جن میں جھرنے اور چشمے تھے۔ سجاوٹ کے لیے سنگ مرمر پر نقش و نگار اور فن خاطی کے نمونے عصر حاضر کے فلک شگاف کنکریٹ کے جنگلات نما شہروں کو کھلا چیلنج پیش کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر انسان گنگ ہو جاتا ہے۔ فقط ایک احساس باقی رہ جاتا ہے اور وہ احساس اسی عہد میں لے جاتا ہے جب یہ شاہکار تخلیق ہوا۔


مغلیہ دور میں زیادہ ترعمارات جپسم، پٹ سن، لکڑی اور سرخ اینٹوں سے بنائی جاتی تھیں۔ سرخ اینٹیں محلوں میں بطور موصل یعنی انسولیٹرز کام کرتی تھیں۔ ان کی یہ خصوصیت ہے کہ دن بھر کی حرارتی توانائی کو اپنے اندر جذب کرتی ہیں اور سورج غروب ہو جانے کے بعد انہیں باہر نکالتی ہیں۔ اسی لیے سرخ اینٹوں سے بنا مغلیہ انفراسٹرکچر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رہتا تھا۔

مغلیہ دور کی مٹی، گاڑے سے بننے والی سرخ اینٹیں سیمنٹ کے برخلاف اپنے اوپر آنے والے دباؤ کو برداشت کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی باعث مرور زمانہ ابھی تک وہ اپنی آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان اینٹوں کی تیاری میں آرگینک اشیاء استعمال ہوتی ہیں آرٹیفیشل یا کسی بھی قسم کا مضر صحت مادہ استعمال نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان میں سے نقصان دہ گیسوں کا اخراج صفر ہوتا ہے۔ یہ فائر پروف ہوتی ہیں کیونکہ ان کی تیاری میں انہیں گھنٹوں تک آگ میں پکایا جاتا ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ماحول دوست فن تعمیرات پر توجہ دی جائے ورنہ سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔