لیبیا: تباہ کن سیلاب میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے متجاوز

طوفان کے بعد آنے والے سیلاب نے مشرقی لیبیا کے شہر درنہ کو بری طرح تباہ کر دیا ہے۔ پانچ ہزار سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ لاپتہ افراد کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ بتائی ہے۔

لیبیا: تباہ کن سیلاب میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے متجاوز
لیبیا: تباہ کن سیلاب میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے متجاوز
user

Dw

مشرقی لیبیا کی حکومت کے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق الخراز کا کہنا ہے کہ تباہ کن سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5200 ہو گئی ہے۔ طارق الخراز نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا امدادی کاموں میں مصروف کارکنان لاشیں نکالنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع سے ہلاک و لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے کیے جانے والے دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

الخراز نے مزید بتایا کہ درنہ شہرکا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ ان کے بقول سمندری طوفان ڈینیئل کی وجہ سے شہر کے دو ڈیم ٹوٹ گئے اور سیلابی ریلہ اپنے ساتھ عمارتوں اور لوگوں کو بہا کر لے گیا۔ شہات بلدیہ کے میئر حسین بودرویشا نے ڈی پی اے کو بتایا کہ طوفانی بارش کی وجہ سے خطے کے تقریباً 20000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پانی بھر گیا۔ ماہرین کے مطابق سن 1963 میں ملک میں آنے والے المرج زلزلہ کے بعد سے یہ اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت ہے۔


انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹیز کے سربراہ تمر رمضان نے بتایا کہ اس ہلاکت خیز سیلاب کی وجہ سے تقریباً دس ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کے علاوہ دیگر کئی مشرقی شہر بھی طوفان کی زد میں آ گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد "بہت زیادہ" ہو گی۔ تمر رمضان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم معلومات کے اپنے آزاد ذرائع سے یہ تصدیق کرسکتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی تعداد 10000 تک پہنچ چکی ہے۔‘‘

اجتماعی تدفین

سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد کا ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا ہے۔ بوابتہ الوسط نامی جریدے کی ویب سائٹ نے منگل کے روز بتایا کہ 300 سے زائد لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ لیبیا کے وزیر صحت عثمان عبدالجلیل نے المسار ٹی وی چینل کو بتایا کہ درنہ میں بہت سے متاثرین پھنسے ہوئے تھے اور بہت سی لاشیں بکھری پڑی تھیں، ''چونکہ درنہ کے اطراف کے علاقے اس سے کٹ گئے ہیں اس لیے ہلاکتوں اور لاپتہ ہونے والے لوگوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘


لیبیا میں اس وقت مغرب اور مشرق میں دو حریف حکومتیں ہے اور دونوں اقتدار پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں، جس کے سبب ملک بدامنی کا شکار ہو گیا ہے۔ مشرقی بندرگاہی شہر درنہ پر اسلامی شدت پسندوں کا کنٹرول ہے۔ بین الاقوامی برادری اس کو تسلیم نہیں کرتی ۔ مغرب میں طرابلس بین الاقوامی طور تسلیم شدہ حکومت ہے۔

بین الاقوامی امداد کا سلسلہ

متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر، الجزائر، تیونس اور یورپی یونین نے فوری طور پر امدادی اشیاء بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو بچانے اور تلاش کے کاموں میں مدد دینے نیز سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اپنی ٹیمیں روانہ کی ہیں۔ جرمنی اور امریکہ سمیت متعدد مغربی ملکوں نے اس قدرتی آفت سے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔


خیال رہے کہ لیبیا سن 2011 میں معمر قذافی کو اقتدار سے معزول اور ہلاک کرنے کے بعد سے ہی بدامنی کا شکار ہے۔ تیل سے مالامال اس ملک پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے متعدد گروپ باہم متصادم ہیں۔ غیر ملکی حکومتوں نے بھی اس تصادم کو ہوا دینے کا کام کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔