لنڈی کوتل سے گزرتی ہوئی لالٹین والی سائیکل

ثمر خان اور جمائمہ آفریدی کا تعلق پختونخوا وطن کے دور دراز علاقوں سے ہے۔ ان علاقوں میں عورتوں پر زندگی کا دائرہ جتنا اب تنگ ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔

لنڈی کوتل سے گزرتی ہوئی لالٹین والی سائیکل
لنڈی کوتل سے گزرتی ہوئی لالٹین والی سائیکل
user

Dw

انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ جو لڑکیاں پیچھے دائرے میں رہ گئی ہیں، ان کے لیے راستے کیسے ہموار کرنے ہیں۔ اس راستے پہ چلنے کے لیے انہوں نے سائیکل کا انتخاب کیا ہے۔ یہ سائیکل شعور کے کارخانوں میں سلیقہ مندی سے تیار ہوئی ہے۔ سائیکل کے ہنڈل پہ ایک طرف لالٹین دوسری طرف کتابوں سے بھری ایک تھیلی لٹک رہی ہے۔ اس میں ارتقا کے پہیے نصب ہیں، جس کی رفتار میں ایک تدریج ہے اور ترتیب ہے۔

یہ سائیکل بغیر کسی شور شرابے کے وقت کی پگڈنڈیوں سے گزر رہی ہے اور جہاں سے گزرتی ہے کچھ سوال چھوڑ جاتی ہے۔ یہ سوال خود مختاری کی طرف ہلکا سا ایک اشارہ کرتے ہیں۔ یہ اشارہ روایت کی فرسودہ دیواروں میں ایک دراڑ ڈالتا ہے، جو دھیرے دھیرے ایک شگاف میں بدل جاتا ہے۔ اس شگاف سے گزر کر روشنی گھر کے اندر اترتی ہے اور رواجوں میں بندھی ہوئی ایک لڑکی کو چپکے سے ایک راستہ بتاتی ہے۔ ایک راستہ، جو زندگی کی طرف نکلتا ہے۔


جاپانی ناول Twenty-four Eyes (چوبیس آنکھیں) آپ نے پڑھا ہو گا۔ اس ناول میں مچھیروں کی ایک بستی ہے، جس کے خارجی راستے پر الوداع اور داخلی راستے پر خوش آمدید لکھا ہوا ہے۔ یہاں سے نوجوانوں کو جنگی ترانوں کی گونج میں مقدس جنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے اور ترانوں کی ہی گونج میں لاشوں کی صورت وصول کیا جاتا ہے۔

یہاں جھیل کنارے ایک سکول ہے، جس میں بارہ بچے پڑھتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے یہ بچے محض بارہ دماغ ہیں مگر ایک جواں سال اُستانی کے لیے وہ چوبیس آنکھیں ہیں۔ اساتذہ بارہ دماغوں کو جذبہ شہادت سے روشناس کرانا چاہتے ہیں مگر استانی آنکھوں کی چوبیس کٹوریوں میں زندگی کے دیپ جلانا چاہتی ہے۔


استانی دو میل دور سے سائیکل پر پڑھانے آتی ہے۔ پہلی بار اس کی سائیکل بستی میں زن زن کرتی ہوئی گزری تو حیرت کی ہوائیں چل گئیں۔ سکول پہنچی تو طالب علموں کے لیے بھی یہ ایک نئی بات تھی۔ لڑکوں نے ہنس کر جنس آلود جملوں کا باہم تبادلہ کیا۔ ماڈرن ہے، مغرب زدہ ہے، بے شرم ہے، بدکار ہے۔ لڑکیوں کے جملے بالکل مختلف تھے۔ کچھ جملے تو وہ تھے جو انہوں نے گھر سے سیکھے تھے۔ جیسے، ''اس کے بال دیکھو اس کے کپڑے دیکھو‘‘۔ کچھ جملے وہ تھے، جو ان کے دل سے نکل رہے تھے۔ جیسے ''کاش میں بھی سائیکل چلا سکوں۔ سڑک پر یوں تیزی سے جاتے ہوئے کتنا مزا آتا ہوگا نا‘‘۔

سائیکل کی زبان نہیں تھی کہ وہ کچھ کہتی مگر سائیکل کا ایک تاثر تھا، جو اس نے بچیوں کے ذہن پر چھوڑ دیا۔ یہ آزادی، برابری اور خود انحصاری کا تاثر تھا۔ انہیں احساس ہوا کہ یہ سڑکیں، جو صرف مردوں کی ہیں، ہم سائیکل دوڑا کر اس میں سے اپنا حصہ وصول کر سکتی ہیں۔ حقوق کی جنگ میں مرد کو بہت کچھ ہاتھ سے نکل جانے کا خوف ہوتا ہے۔ عورت کو بہت کچھ واپس ہاتھ آنے کا یقین ہوتا ہے۔ دونوں کا احساس ایک نہیں ہے تو تبصرے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟


پاکستان مچھیروں کی وہی جاپانی ناول والی بستی ہے۔ اس کے داخلی اور خارجی راستے پختونخوا سے نکلتے ہیں۔ ان راستوں سے گزار کر جوانوں کو جنگوں میں جھونکا جاتا ہے، انہی راستوں سے ان کی لاشیں وصول کی جاتی ہیں۔ یہاں ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہادت کی پرورش کے لیے بچوں کو جنم دیں۔ وہ صرف لاش وصول کر سکتی ہیں، جنازہ پڑھ سکتی ہیں اور نہ قبرستان جا سکتی ہیں۔ یہاں کے درس گاہوں میں بھرتی کے اساتذہ موت کی فضائل پڑھا رہے ہیں اور کچھ لڑکیاں سائیکل کے پینڈل گھماکر زمانے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

سائیکل لنڈی کوتل سے گزر رہی ہے تو نئی بات سے ڈرنے والے پرانے لوگوں نے بینر اٹھا لیے ہیں ''عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے‘‘۔ ذرا سا آگے بنوں میں انہی لوگوں نے خواتین سے ایک ایسے پارک تک میں جانے کا حق چھین لیا ہے، جس کے دروازے پر ''فیملی پارک‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اسی علاقے کا واقعہ ہے، جب ایک مذہبی رہنما سے پوچھا گیا کہ ''آپ کے دھرنے میں خواتین کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔ قہقہہ لگاکر بہت رعونت سے انہوں نے کہا، ''اپنی خواتین کی نمائندگی کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔


اٹھارویں صدی تک مغرب کا قانون بھی یہی کہتا تھا کہ شوہر کا ووٹ اس کی بیوی کی نمائندگی کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس فرسودہ خیال کو آخری ضرب لگانے کے لیے، جب عورتیں دنیا بھر میں نکلیں تو کچھ لڑکیاں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے بھی پہنچیں۔ پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے کہا، ''تمہارا درست مقام تمہارا گھر ہے‘‘۔ طنز ارزاں کرتے ہوئے بولا، برتن دھونے کا کام ہی تم لوگ ٹھیک سے کرسکتی ہو، وہی کیا کرو۔ ایک باغی لڑکی نے آگے بڑھ کر کہا، ''بلاشبہ برتن دھونا تو ہمیں ہی آتا ہے۔ برتن دھونے ہی تو ہم گھر سے نکلی ہیں۔ ہم ایک ایک برتن کو ٹھیک سے مانجھ کر چھوڑیں گے، ان برتنوں کو بھی جو اس پارلیمینٹ کے اندر پڑے ہیں‘‘۔

اگلی صدی نے دیکھا کہ راستہ روکنے والوں کا فرسودہ فکری مواد تاریخ کے کوڑے دان میں چلا گیا اور سائیکل پر آنے والی لڑکیاں وہ سارا میل صاف کرنے پارلیمنٹ پہنچ گئیں، جو صدیوں سے آئین اور قانون کے برتنوں پر جما ہوا تھا۔ ہمیں کھینچ کر پچھلی صدیوں میں لے جایا گیا ہے مگر اگلی صدی کا نوشتہ بھی آس پاس کی دیواروں پر ابھر رہا ہے۔ ارتقاء کے کچے پکے راستوں پر سائیکلیں اتر چکی ہیں۔ استقامت اور حوصلے کے مدار میں جب یہ سائیکلیں اپنا چکر پورا کر لیں گی تو پیچھے مڑ کر دیکھیے گا۔


عورت کے ''اصل مقام‘‘ کا تعین کرنے والے بینروں سے بچے سائیکلوں پر پڑی دھول جھاڑیں گے اور راستہ روکنے والوں کی اپنی بیٹیاں گھروں سے نکل کر نئی صبحوں اور نئی شاموں کا دستور لکھیں گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */