جرمنی: مسجد پر حملے کے بعد سیاسی جماعت کے دفتر پر بھیڑوں کے سر پھینکے گئے

جرمن شہر لائپزگ میں مسجد میں توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد بظاہر ایک انتقامی کارروائی کی گئی، جس میں بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کے مقامی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔

جرمنی: مسجد پر حملے کے بعد سیاسی جماعت کے دفتر پر بھیڑوں کے سر پھینکے گئے
جرمنی: مسجد پر حملے کے بعد سیاسی جماعت کے دفتر پر بھیڑوں کے سر پھینکے گئے
user

Dw

جرمنی کے مشرقی شہر لائپزگ میں نامعلوم حملہ آوروں نے بائیں بازو کی سیاستدان جولیا ناگل کے دفتر پر سولہ دسمبر جمعرات کے روز دو بھیڑوں کے کٹے ہوئے سر پھینک دیے۔ پولیس کے مطابق تخریب کاروں نے دفتر کے سامنے آتش بازی کا مواد پھینکا اور وہاں ایک پیغام کے ساتھ پرچی بھی چھوڑ گئے۔ اس حملے میں عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

یہ واقعہ لائپزگ کی ایک مسجد پر حملے کے بعد پیش آیا، جو مبینہ طور پر انتہائی بائیں بازو کے نظریات کے حامل گروپ نے کیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں مسجد کی عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد مقامی افراد نے کافی غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔


جرمن ریاست سیکسنی کی لیفٹ پارٹی سے وابستہ قانون ساز جولیا ناگل نے مقامی اخبار کو بتایا، ''اس واقعے سے واضح ہوگیا کہ پیر کے روز [مسجد پر ] ہونے والے حملے کا ہمیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

'انتقامی کارروائی‘

لائپزگ پولیس اس بارے میں تفصیلات بتانے سے قاصر ہے کہ جمعرات کے اس واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ پولیس نے بتایا، ''جائے وقوعہ سے ایسے شواہد ملے ہیں جو سیاسی محرکات کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘‘ تاہم اس بارے میں مزید تحقیقات کی جارہی ہے۔


علاوہ ازیں ناگل نے وسطی جرمنی کے صوبائی نشریاتی ادارے ایم ڈی آر کو بتایا کہ دفتر کے سامنے پٹاخے نما آتش بازی کا مواد استعمال کیا گیا اور گاڑی سے دو جانوروں کے سر پھینکنے کے ساتھ ساتھ ایک پیغام کی پرچی بھی پھینکی گئی، جس میں لفظ ’’مسجد‘‘ لکھا ہوا تھا۔

بعد ازاں انہوں نے ٹوئٹر پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ''ہمیں مسجد پر حملے کا ذمہ دار اس لیے ٹھہرایا جارہا ہے کیونکہ ہم نے اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ''ہم نے واضح طور پر کہا ہے کہ عبادت کے مقامات اور مہاجرین پر حملہ غلط ہے!‘‘


جرمنی میں ترکش مساجد پر تنقید

جرمنی میں مساجد اور آئمین کے مبینہ طور پر ایک ملک کے ساتھ تعلقات اور اثر و رسوخ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، خاص طور پر دیتِب (DITIB) یا 'مذہبی امور کی ترک اسلامی یونین‘ نامی تنظیم پر۔ مذکورہ مسجد کا تعلق بھی دیتِب سے ہی ہے۔ یہ تنظیم جرمنی میں ترک مسلمانوں کی 900 کے قریب مساجد کا ایک مجموعی انتظامی ادارہ ہے لیکن اس کے جتنے بھی آئمین مساجد میں فرائض انجام دیتے ہیں، ان سب کی تربیت اور ان کے لیے مالی وسائل ترکی سے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کو ماضی میں ترک دائیں بازو کی قوم پرستی اور سامیت دشمنی پھیلانے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

جولیا ناگل نے مسجد پر حملے سے قبل مقامی اخبار سے گفتگو میں مسجد کے منتظمین پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا، ''خود کو بے وقوف بنانے کی ضرورت نہیں ہے، مسجد کے امام ترکی کے حکام ہیں، اور انہیں استنبول سے خطبے موصول ہوتے ہیں۔‘‘


دریں اثنا لائپزگ میں تارکین وطن افراد کی مشاورتی تنظیم کے شریک چیئرپرسن فرانسسکو روسو نے بائیں بازو کے چھوٹے گروپ کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''ہم حیران ہیں کہ ایسا گروپ جو خود کو فاشزم، تشدد اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنے کے خلاف ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، خود ہی اب تشدد کی کارروائیاں کرتا پھرتا ے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔