بطور وزیر اعظم سعودی ولی عہد کا خاشقجی کے قتل کیس میں استثنٰی کا دعویٰ

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے وکلاء نے عدالت کو بتایا ہے کہ چونکہ شہزادہ سلمان کو اب وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا ہے، اس لیے صحافی جمال خاشقجی قتل کے مقدمے میں انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔

بطور وزیر اعظم سعودی ولی عہد کا خاشقجی کے قتل کیس میں استثنٰی کا دعویٰ
بطور وزیر اعظم سعودی ولی عہد کا خاشقجی کے قتل کیس میں استثنٰی کا دعویٰ
user

Dw

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وکلاء نے تین اکتوبر پیر کے روز ایک امریکی عدالت کو بتایا کہ چونکہ ولی عہد کو اب سلطنت کا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا ہے، اس لیے انہیں اب یقینی طور پر کسی بھی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

واضح رہے کہ سن 2018ء میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف امریکہ کی ایک عدالت میں قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔


سعودی ایجنٹوں نے صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ایک آپریشن کے تحت قتل کر دیا تھا۔ امریکی انٹیلیجنس کا خیال ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی ان کے قتل کا حکم دیا تھا، جو گزشتہ کئی برس سے مملکت کے عملی حکمران بھی ہیں۔

مقدمہ خارج کرنے کی اپیل

خبر رساں ادارے روئٹرز کی اطلاع کے مطابق محمد بن سلمان کے وکلا نے اپنی دلیل میں کہا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے جو، ’’شاہی حکم نامہ جاری کیا ہے اس کی بنیاد پر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عہدے اور حیثیت کی بنیاد پر ولی عہد شہزادہ استثنیٰ کے حقدار ہیں۔‘‘


محمد بن سلمان کے وکلاء نے عدالت سے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست کرنے والی اپنی عرضی میں ایسے دوسرے معاملات کا حوالہ بھی دیا ہے جہاں امریکہ نے غیر ملکی سربراہ مملکت کے لیے استثنیٰ کو تسلیم کیا ہے۔

عدالت نے سماعت کے بعد امریکی محکمہ انصاف سے کہا کہ اس بارے میں وہ اپنی رائے کا اظہار کرے کہ آیا شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں۔ عدالت نے جواب داخل کرنے کے لیے تین اکتوبر کی ہی تاریخ بھی مقرر کر دی۔


تاہم امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ چونکہ محمد بن سلمان کو گزشتہ ہفتے ہی وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے اس لیے، ’’بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں‘‘ اسے جواب دینے کے لیے کم سے کم 45 دن کی مہلت دی جائے۔

مقدمہ کیا ہے؟

یہ مقدمہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اور خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ نے مشترکہ طور پر دائر کیا تھا اور سعودی ولی عہد کے خلاف غیر معینہ ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کیس میں محمد بن سلمان کے ساتھ ہی ان 20 سے زائد دیگر سعودی شہریوں پر بھی مقدمہ دائر کیا گیا ہے، جن پر قتل کا آپریشن انجام دینے کا الزام ہے۔


ان سب پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جب محمد بن سلمان اور دیگر ملزمان کو یہ معلوم ہوا کہ جمال خاشقجی ’’جمہوری اصلاحات اور انسانی حقوق کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں‘‘، تو ان سب نے مل کو انہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی سازش کا ایک منصوبہ تیار کیا۔ محمد بن سلمان کو گزشتہ ہفتے ان کے بزرگ والد شاہ سلمان نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے وزیر اعظم نامزد کر دیا تھا۔ اس سے قبل تک وہ وزیر دفاع تھے۔

سن 2018ء میں محمد بن سلمان کی ساکھ اس وقت بری طرح داغدار ہو گئی تھی جب ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ممتاز سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل کر دیا گیا تھا۔ امریکی خفیہ اداروں کے مطابق ممکنہ طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہی نے ان کے قتل کی منظوری دی تھی۔


خاشقجی کی موت کے بعد ابتدا میں تو کئی مغربی ممالک نے خود کو مملکت سے الگ کر لیا تھا لیکن فرانس، جرمنی اور امریکہ کے رہنماؤں نے حال ہی میں محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات اور بات چیت بھی کی ہے، کیونکہ مغربی ممالک خاص طور پر یورپ کو اب فوسل ایندھن کے لیے روس سے ہٹ کر دیگر قابل اعتماد ذرائع کی تلاش ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو ''الگ تھلگ‘‘ کر دیں گے، تاہم انہوں نے بھی مملکت کا دورہ کیا اور ولی عہد سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ کے ساتھ تعلقات کی مسلسل اہمیت کو تسلیم کرتے ایسا کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔