پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت تباہی کے دہانے پر، لاکھوں مزدور بے روزگار

صنعت کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی کے باعث تقریباً 70 لاکھ ورکرز کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، جس سے یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

پاکستان کے 'ٹیکسٹائل حب‘ فیصل آباد میں ایک ٹیکسٹائل فیکڑی میں کام کرنے والے ایک مزدور اشرف علی کے لیے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا گویا اس کی پوری زندگی کی تباہی ہے۔

42 سالہ علی سات بچوں کے باپ ہیں، ان کا کہنا تھا، ''ملک میں کپاس کی قلت کی وجہ سے مجھے ستارہ ٹیکسٹائل، فیصل آباد میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے 24 سال اس کمپنی کو دے دیے تھے اور نوکری سے نکالا جانا میرے لیے انتہائی افسوس ناک اور باعث دکھ تھا۔‘‘


گزشتہ سال کے سیلاب نے کپاس کی فصل کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا تھا۔ سیلاب کے نتیجے میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 33 ملین سے زیادہ متاثر ہوئے، بلکہ اس نے اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی پہنچایا اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

خام مال کا بحران

پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ٹیکسٹائل پروڈیوسرز میں ہوتا ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 2021 ء میں 19.3 بلین ڈالر یا 17.8 بلین یورو رہی، جو ملک کی مجموعی برآمدات کا نصف سے زیادہ بنتی ہے۔ پاکستان کی بہت سی چھوٹی ٹیکسٹائل ملز اور 'مینوفیکچرنگ یونٹس‘ جو یورپ اور امریکہ میں صارفین کے لیے بیڈ شیٹس، تولیے اور ڈینم تیار کرتے ہیں، اب کپاس کی قلت کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس صنعت کو ٹیکس میں کیے جانے والےحالیہ اضافے کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اس صنعت کو ان چیلنجز کا سامنا ایک ایسے وقت پر کرنا پڑا جب پاکستان کی اقتصادی صورتحال نہایت سنگین ہے۔


ایک طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا سخت پروگرام دوسری جانب افراط زر اور کرنسی کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے یہ ملک اپنی معاشی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ایسے میں اسلام آباد حکومت کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی صنعت ضروری خام مال حاصل نہیں کر پا رہی اور نتیجتاً بین الاقوامی آرڈرز کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر خام مال، طبی آلات اور اشیائے خورونوش کے ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، گزشتہ ہفتے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.3 بلین ڈالر تک گر گئے، جو فروری 2014 ء کے بعد ان کی کم ترین سطح ہے۔ اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کو ختم کرنے اور 1.1 بلین ڈالر کے قرضوں کے اجراء کے لیے بات چیت کرنے کی اُمید لگائے بیٹھا ہے جو ستمبر سے زیر التواء ہے۔


سیاسی کشیدگی براہ راست اثر انداز

ایک معاشی تجزیہ کار فرحان بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کے مسئلے کو حل کرنا چاہیےتاکہ معاشی بے یقینی کو ختم کیا جا سکے، اور درآمدات اور قرضوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹیکسٹائل پروڈیوسرز کے ساتھ بھی بات چیت ضروری ہے۔‘‘

اسی دوران فیصل آباد میں پاکستان 'ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن‘ سے تعلق رکھنے والے محمد امجد خواجہ نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کو سیاسی کشیدگی کا نتیجہ قرار دیا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ نے کہا، ''ملک میں سیاسی عدم استحکام کاروبار اور معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے درمیان کاروباری شعبے میں اعتماد کا فقدان پیدا ہو چُکا ہے اور خریدار خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔‘‘


گزشتہ ماہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) اپٹما نے وزیراعظم شہباز شریف سے ان معاملات میں مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔ دریں اثناء اپٹما کے سرپرست اعلیٰ گوہر اعجاز نے ایک خط میں تحریر کیا، ''بہت بڑی تعداد میں نوکریاں پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں اور اگر فوری طور پر موثر اقدامات نے کیے گئے تو بقیہ ملازمتیں بھی باقی نہیں رہیں گی۔‘‘

گوہر اعجاز نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو کپاس کی درآمد کے لیے 2 ارب ڈالر کے قرض کا بندوبست کریں۔ اعجاز نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے رعایتی قرضوں کا اعلان کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔