’بوسہ تنازعہ‘ کیا دلائی لامہ کی ساکھ کمزور ہو گئی؟

دلائی لامہ کو ایک بار پھر بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی وجہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیوبنی جس میں وہ ایک نوجوان لڑکے کو چومتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے کہ ’’میری زبان چوس لو‘‘۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے بعد کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود دلائی لامہ کے پیروکاروں میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی یا ان کے احترام میں کوئی فرق نہیں آیا۔

واقعہ کیا تھا؟

یہ متنازعہ واقعہ 28 فروری کو بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کے دھرم شالہ میں پیش آیا، جہاں دلائی لامہ 1959ء میں جلاوطن کے بعد سے مقیم ہیں۔ اس واقعہ کے وقت ستاسی سالہ نوبل امن انعام یافتہ دلائی لامہ ایک تربیتی پروگرام مکمل کرنے والے طلباء کے ایک گروپ سے بات چیت کر رہے تھے۔


اس اجتماع کے بعد دلائی لامہ کے دفتر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،''ایک ویڈیو کلپ گردش کر رہی ہے جس میں ایک لڑکے کی دلائی لامہ سے حالیہ ملاقات کو دکھایا گیا ہے۔ اس نوجوان لڑکے نے عزت مآب دلائی لامہ سے پوچھا کہ کیا وہ اسے گلے لگا سکتے ہیں۔ دلائی لامہ نے اس لڑکے سے کہا کہ کیا وہ اُن کی زبان چوسنا چاہتا ہے؟ اس ویڈیو میں دلائی لامہ کو اس لڑکے کے ہونٹوں پر بوسہ دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

اس واقعے کے بعد ان کے دفتر نے ایک تاسفی بیان میں کہا کہ دلائی لامہ لڑکے اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پائے جانے والے اپنے دوستوں سے ان الفاظ کے لیے معافی مانگنا چاہتا ہیں، جن سے انہیں تکلیف پہنچی ہے۔ ‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا،'' دلائی لامہ اکثر ان لوگوں کو چھیڑتے ہیں، جن سے وہ معصومانہ اور چنچل انداز میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ عوام میں اور کیمروں کے سامنے بھی۔‘‘


تبت کے پیرو کاروں کا حمایت کا وعدہ

تبت میں بدھ مت کے پیروں کاروں نے تنقید کا نشانہ بننے والے اپنے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ تبتی یوتھ کانگریس (ٹی وائی سی) کے صدر گونپو دھونڈوپ کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو پر سامنے آنے والے رد عمل سے تبتی کمیونٹی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور انہیں ''زخم‘‘ لگا ہے۔

دھونڈپ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ہنگامہ یقیناً پریشان کن ہے۔ اس سے لاکھوں تبتیوں، بدھ مت کے پیروکاروں اور دنیا بھر میں دلائی لامہ کے مداحوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔‘‘ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد لداخ یونین کے علاقے لیہہ اور کارگل کے قصبوں نے لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے ہزاروں مظاہرین کو دلائی لامہ کی حمایت کے لیے باہر آتے دیکھا۔


کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ اس ساسلے میں دلائی لامہ کے رویے کی غلط تشریح کی گئی تھی اوریہ ثقافتی اطوار کی غلط تشریح کا مسئلہ تھا۔ ایک تبتی باشندے تینسین دعوا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''تبت میں اپنی زبان کو باہر نکالنا ہیلو کہنے کا ایک روایتی طریقہ رہا ہے۔ یہ احترام کی علامت بھی ہے۔ تبتی ثقافت میں اسے سلام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

اُدھر بے حیائی اورجنسی استحصال سے بچ جانے والی خواتین اور بچوں کی نئی دہلی میں قائم ایک تنظیم راہی فاؤنڈیشن نے دلائی لامہ کے بارے میں بننے والے اس اسکینڈل پر بیان دیتے ہوئے کہا،'' ہمیں کسی بھی لمحے اس بات کا یقین نہیں ہوسکتا کہ دلائی لامہ کے اس رویے کے پیچھے کوئی جنسی عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اسے دلائی لامہ کے کردار کے عین مطابق زندہ دلی، محبت کے اظہار اور انسانوں کو خود سے قریب محسوس کرنے کے اظہار کے طور پر دیکھا۔‘‘


بی بی سی کی تحقیقات

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے دلائی لامہ پر اس الزام کی تحقیقات یا مانیٹرنگ کے بعد کہا گیا کہ،'' کسی قسم کے غیر مستند آن لائن سرگرمی کے آثار نہیں ملے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تنقید حقیقی اور متنوع ذرائع سے ہوئی ہے۔ ‘‘

دلائی لامہ گزشتہ ہفتے عوام کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے دہلی میں دو روزہ عالمی بدھ سمٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے لوگوں سے ہمدردی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنے اور مراقبہ کرنے کی اپیل کی جو کہ بدھ مت کے فلسفے اور اقدار کا نچوڑ مانا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔