ترقی یافتہ لیکن روایت پسند جاپان میں دھماکا خیز عدالتی فیصلہ

ترقی یافتہ لیکن بہت روایت پسند جاپان میں ایک دھماکا خیز عدالتی فیصلہ حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے دھچکے کی وجہ بن گیا ہے۔ عدالت کے مطابق ہم جنس پرست شہریوں کی آپس میں شادیوں پر پابندی غیر آئینی ہے۔

ترقی یافتہ لیکن روایت پسند جاپان میں دھماکا خیز عدالتی فیصلہ
ترقی یافتہ لیکن روایت پسند جاپان میں دھماکا خیز عدالتی فیصلہ
user

Dw

جاپان صنعتی طور پر دنیا کے ان سات ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے، جنہیں مشترکہ طور پر جی سیون کہا جاتا ہے۔ لیکن جاپان جی سیون کا وہ واحد رکن ملک ہے، جہاں ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادیوں یا پارٹنرشپ کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

ٹوکیو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ساپورو کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے کل بدھ سترہ مارچ کے روز ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متعدد درخواست دہندگان کی یہ درخواست تو مسترد کر دی کہ حکومت انہیں زر تلافی ادا کرے۔ تاہم ساتھ ہی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 'چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ کہلانے والے اس ملک میں ایک ہی صنف سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی شادیوں پر عائد قانونی پابندی غیر آئینی ہے۔


ہم جنس پرست شہریوں کی بڑی کامیابی

یہ عدالتی فیصلہ مشرق بعید کی اس قدامت پسند بادشاہت میں ہم جنس پرست افراد کے لیے مساوی سماجی اور قانونی حقوق کی جدوجہد میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس عدالتی فیصلے کا اثر ملک میں زیر سماعت ایسے ہی کئی دیگر مقدمات پر بھی پڑے گا۔


عدالتی فیصلے کے مطابق کسی انسان کے جنسی رجحانات بھی اس کی نسل یا صنف کی طرح کوئی ایسی بات نہیں ہوتے، جس کا اس نے اپنے لیے ذاتی ترجیحی بنیادوں پر انتخاب کیا ہو۔ اس لیے ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادیوں کو قانوناﹰ تسلیم نا کرنے اور انہیں دیگر روایتی شادی شدہ جوڑوں کی طرح سماجی یا مالی مراعات سے محروم رکھنا ملکی آئین کے منافی ہے۔

جاپانی آئین کا آرٹیکل نمبر چودہ


عدالتی فیصلے کی دستاویز کے مطابق، ''شادی کی صورت میں ملنے والی قانونی سہولیات اور مراعات ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی اسی طرح ملنا چاہییں، جس طرح وہ مردوں اور عورتوں پر مشتمل روایتی شادی شدہ جوڑوں کو ملتی ہیں۔‘‘

اپنے اس فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے جج توموکو تاکےبے نے کہا کہ ہم جنس پرست افراد کو آپس میں شادیاں کرنے کی قانونی اجازت نا دینا یا ایسی شادیوں کو قانوناﹰ تسلیم نا کرنا ملکی آئین کی شق نمبر چودہ کی نفی کرتا ہے۔ جاپانی آئین کے اس آرٹیکل کی رو سے کسی بھی شہری کے ساتھ اس کی 'نسل، رنگت، صنف، سماجی حیثیت یا خاندانی پس منظر‘ کی بنیاد پر امتیازی برتاؤ نہیں کیا جا سکتا۔


شادی کی اب تک مروجہ قانونی تعریف

سماجی حوالے سے بھی جاپان میں مروجہ عائلی قانون کے تحت کوئی بھی شادی 'دونوں اصناف سے تعلق رکھنے والے افراد کی باہمی رضامندی کی بنیاد‘ پر ہی کی جا سکتی ہے۔ اس کا قانونی ماہرین مطلب یہ نکالتے ہیں کہ دونوں اصناف سے مراد باہم مخالف اصناف ہیں، یعنی کوئی بھی قانونی شادی صرف کسی مرد اور عورت کے مابین ہی ہو سکتی ہے۔


ٹوکیو سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق آج کے عدالتی فیصلے کا مطلب یہ نہیں کہ اب حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی فوری طور پر بدلنا ہو گی۔ اس فیصلے کا تاہم یہ مطلب ضرور ہے کہ اب حکومت پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ مستقبل میں ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کرے، جن کے بعد ہم جنس پسند افراد بھی آپس میں قانونی شادیاں کر سکیں۔

جاپان میں اسی طرح کے مقدمات ٹوکیو، اوساکا، ناگویا اور فوکواوکا کی مختلف عدالتوں میں بھی زیر التوا ہیں، جن پر ساپورو کی عدالت کا فیصلہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔