سرمایہ دارانہ میڈیا طے کرتا ہے کہ لوگوں کو کیا دکھاکر زیادہ پیسہ بنایا جا سکتا ہے:شیما کرمانی

پاکستان کے پدرسری معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے کئی دہائیوں سے جدوجہد میں مصروف شیما کرمانی سے ایک خصوصی ملاقات۔

شیما کرمانی، چار دہائیوں سے خواتین کے حقوق کی علمبردار
شیما کرمانی، چار دہائیوں سے خواتین کے حقوق کی علمبردار
user

Dw

کراچی شہر کے شور و غل سے دور، سمندر کنارے رہائش پذیر، سمندر جیسی وسعت رکھنے والی پاکستان کی ایک عظیم فنکارہ پچھلی کئی دہائیوں سے پدرسری معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔کمرے میں سجی بےشمار کتب اور ان کے فن کی بے شمار یاداشتیں ان کے شوق، کامیابی اور مستقل مزاجی کا پتا دیتی ہیں۔ تقریبا چالیس سال پہلے تحریک نسواں کا سنگ بنیاد رکھنے والی شیما کرمانی پاکستان میں صف اول کی جواں ہمت خواتین میں شمار ہوتیں ہیں۔

شیما کرمانی کی پیدائش راولپنڈی کے ایک فوجی گھرانے میں ہوئی۔ 13 سال کی عمر میں کراچی آنے کے بعد یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا، ''ہمارے خاندان میں سب کو فن اور ادب سے بہت لگاؤ تھا گھر میں کتب بینی کا بھی رجحان تھا۔ میرے والد کو مغربی کلاسیکی اور والدہ کو مشرقی کلاسیکی موسیقی کا بہت شغف تھا۔‘‘


یہی وجہ تھی کہ شیماکرمانی نے آٹھ سال کی عمر میں ہی مغربی کلاسیکی موسیقی سیکھنے کا آغاز کردیا تھا۔ ''میں نے تقریبا آٹھ سال تک سنجیدگی سے مغربی کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ لیکن اس وقت کلاسیکی رقص کی طرف کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ ‘‘

بیرون ملک فائن آرٹس پڑھنے کے بعد انہوں نے بھارت سے کلاسیکی رقص کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس رقص کی مختلف اقسام سیکھنے کے بعد پاکستان آکر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ فن صدیوں پرانا ہے اور ہماری دھرتی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ہمارا کلچر اور ورثہ ہے۔‘‘


چونکہ ہمارے معاشرے میں رقص کو برا سمجھا جاتا ہے اس لیے شیما کرمانی کو اپنے طویل کیریئر میں بےتحاشا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا، ''میں اب تک زندہ ہوں یہ بہ ذات خود ایک کامیابی ہے۔ اس لیے کہ مجھے بہت ساری دھمکیاں ملیں اور اب تک ملتی ہیں۔ عورت مارچ کے لیے مجھ پر ایف آئی آر کاٹی گئی تھی۔‘‘

ان کا ماننا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ کچھ مثبت تبدیلیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خواتین اب نوکری کر رہی ہیں اور معاشرے میں مضبوط ہوگئی ہیں، لیکن معاشرہ پھر بھی مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ ''مرد اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور صرف اسے اپنی پرواہ ہے، یہ سوچ بدلنا پڑے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم گھر سے باہر نکلیں اور بتائیں کہ یہ ظلم تم عورت پر نہیں کر رہے بلکہ پورے سماج پر کر رہے ہو، اپنی اولاد پر کر رہے ہو، اپنے مستقبل پر کر رہے ہو۔ بھلا جب آپ کے تعلقات اپنے گھر کی خواتین سے بہتر نہ ہوں تو آپ ایک پرسکون زندگی کیسے گزار سکتے ہیں۔‘‘


شیما کرمانی کا شمار پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے ابتدائی فنکاروں میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں پیش کیا جانے والے مواد پر کیے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ''پاکستان ٹیلی ویژن جب آیا تو میں اسکول میں تھی اس وقت کا معاشرہ زیادہ کھلے ذہن کا تھا۔ ضیاءالحق کے آنے کے بعد سے اصل تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اس سے پہلے کے ڈراموں میں خواتین کو بہت مضبوط دکھایا جاتا تھا۔ اب ڈراموں میں وہ عورت دکھائی جاتی ہے جو ظلم برداشت کرتی ہے۔ آنسو بہاتی ہے لیکن چپ رہتی ہے وہ اچھی عورت بن گئی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو مثبت رنگ میں دکھایا جاتا تھا لیکن اب اسے بہت منفی رنگ میں دکھایا جاتا ہے۔ اب عورت کو صرف جنسی نظر سے دیکھا جاتا ہے چاہے وہ ٹیلی ویژن ہو یا ادب۔‘‘

شیما کرمانی کے خیال میں سرمایہ دارانہ میڈیا یہ طے کرتا ہے کہ لوگوں کو کیا دِکھا کر زیادہ پیسہ بنانا ہے۔ وہ لوگوں کو ایسی عورتیں دکھانا چاہتے ہیں جنہیں گھر میں بند رکھا جاتا ہے۔ عورت کو بس رلاتے ہوئے دکھایا جائے اور اس طرح کی کہانی دکھائی جائے جو ایک عام انسان کی زندگی سے تعلق نہیں رکھتی۔


''ہمارے ڈرامے عام انسان کی کہانی کیوں نہیں دکھاتے؟ وہ عورت جو کام کرتی ہے یا اورنگی ٹاؤن میں رہتی ہے، کس طریقے سے وہ نوکری کرتی ہے. وہ ہیروئن کیوں نہیں بنتی؟‘‘

ان کا ماننا ہے کہ 1970 کے بعد سے آنے والی تبدیلیوں اور پھر میڈیا کے دکھائے جانے والے مواد نے سوال اٹھانے والے اور کھلے ذہن کو برباد کر دیا ہے۔ شیما کرمانی کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور میڈیا پر خواتین سے متعلق منفی مواد نے معاشرے کو شدید نقصان پہنچایا۔


''یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں اختلاف رائے برداشت ہی نہیں کیا جاتا یا تو میں آپ کو مار دوں گا یا آپ مجھے مار دیں۔ یہ تو ایک انتہائی جاہلانہ وقت آگیا ہے ہم انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور عورتوں کو تو بالکل بھی نہیں۔‘‘

انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نہایت افسوس سے کہا، ''بچپن میں ہماری کلاس میں پارسی، ہندو، گوانس ہوا کرتے تھے لیکن ہم نے کبھی کسی سے اس کے مذہب پر سوال نہیں کیا تھا۔ اسی طرح کراچی کے درمیان ایک ٹرام چلتی تھی جس میں ہم سفر کرتے تھے لیکن کبھی کسی نے تنگ نہیں کیا اب اگر ایک عورت سڑک پر چلے تو وہ محفوظ نہیں۔‘‘


شیما کرمانی نے بحیثیت فنکارہ پوری دنیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو ایک ناقابل فراموش واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بتایا۔ ''عورت کی زندگی پر بنائے گئے ایک ناٹک کے اختتام پر ایک بوڑھا آدمی کھڑا ہوا اور نم آنکھوں سے کہنے لگا کہ جیسے اس ڈرامے میں لڑکی نے آزادی حاصل کی ہے میں گھر جا کر اپنی بیٹی سے بھی کہوں گا کہ اسے بھی ایسے ہی کھڑے ہو کر اپنے حق کے لیے لڑنا ہوگا اور آزادی حاصل کرنا ہوگی ۔ یہ سوچ کر ہمیشہ میری آنکھ میں آنسو آجاتے ہیں اور مجھے امید اور حوصلہ ملتا ہے کہ اگر ایک انسان بھی ہمارے دیے ہوئے پیغام کو سمجھ کر عمل کرے تو اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔‘‘

شیما کرمانی کے مطابق، ''پرفارمنگ آرٹس ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے آپ تفریح کے ساتھ کوئی مثبت پیغام بھی دے سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔‘‘


عورت مارچ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ۔ ''عورت مارچ ایک تحریک بن چکا ہے اب بہت سے شہروں میں ہونے لگا ہے اس کی شروعات ہم نے 2018 میں کراچی سے کی تھی۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ خواتین پر ظلم اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس مارچ کا ہونا ناگزیر تھا۔‘‘

اس مارچ کے لیے ہر شعبے سے خواتین اکٹھا ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے سال پانچ ہزار پھر سات ہزار اور پچھلے سال تقریبا دس ہزار خواتین نے اس میں حصہ لیا تھا۔


خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا، ''خواتین اگر مل جائیں اور اپنی صلاحیتوں کوسمجھ جائیں تو بہت طاقتور ہیں۔ ہم ایسا سماج بنانا چاہتے ہیں جہاں کوئی بھی عورت خوف میں نہ رہے، ہرعورت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک بھرپور زندگی گزار سکے ، بغیر کسی ڈر خوف کے, بغیر کسی آنسو کے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */