کیا ڈیجیٹل دور میں روایتی میچ میکرز پر انحصار درست ہے؟

آج بھی ہمارے معاشرے میں رشتہ کروانے کے لیے 'میچ میکرز‘ خواتین پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی بہت سے نوجوان اپنا ساتھی ویب سائٹس کے ذریعے تلاش کر لیے ہیں۔ شادی کے لیے ان میں سے کونسا طریقہ درست ہے؟

کیا ڈیجیٹل دور میں روایتی میچ میکرز پر انحصار درست ہے؟
کیا ڈیجیٹل دور میں روایتی میچ میکرز پر انحصار درست ہے؟
user

Dw

مشرقی معاشرے میں شادی بیاہ کے لیے روایتی طور پر لوگ اپنے اقرباء وحلقہ احباب، میچ میکرز پر انحصار کرتے چلے آئے ہیں لیکن مرورِ ایام رشتہ کروانے والی پیشہ ور آنٹیاں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ آج بھی بڑی تعداد میں رشتہ انہی خواتین کے ذریعے طے پاتا ہے البتہ کچھ خواتین نے رشتے کروانے کی آڑ میں فراڈ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ان کے ہمراہ مرد حضرات بھی گینگ کی صورت میں شامل ہیں۔ یہ جماعت چند ہزار کمانے کے لیے کسی کی زندگی برباد کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔ مشاہدے میں ہے کہ رشتہ کروانے والی خواتین کی بڑی تعداد ان پڑھ ہے۔ ان میں سے بعض فون پر رشتے اور بعض نے باقاعدہ آفس کھول رکھے ہیں۔ ان خواتین کا ڈھنگ ہی نرالہ ہے، جب کوئی والدین باپ اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے آتا ہے تو وہ دبنگ لہجے میں صاف گو بنتے ہوئے انہیں اصلی شناختی کارڈ لانے کو کہتی ہیں، ''جی ہم کسی کے ساتھ فراڈ نہیں کر سکتے۔‘‘

بس پھر کیا, وہ بیچارہ والد جس کی بیٹی 20 یا 24 سال کی ہے اسے لگتا ہے کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے میری بیٹی کی شادی تو ایک دو سال پہلے ہوجانی چاہیے تھی۔ گویا ان پریشان حال والدین پر پریشر ڈالا جاتا ہے۔ ''بھئی آپ کی لڑکی کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اب جو رشتہ ہم دکھائیں آپ اسی پر اکتفا کریں‘‘۔ والدین جب ان کی بات پر نفی میں جواب دیں تو پھر گاہے بگاہے لڑکی کی خامیاں گنوائی جاتی ہیں۔ مضحکہ خیز بات ہے کہ ہر رشتہ کروانے والی خاتون نے اپنا علیحدہ ہی ریٹ فکس کر رکھا ہے۔ پاکستانی لڑکا 2 ہزار سے لے کر 12 ہزار روپے تک، خلیجی ممالک میں رہنے والے لڑکوں کے لیے 5 تا 25، امریکہ و کینڈا اور یورپ کے لیے 15 تا 50 ہزار روپے تک مانگے جاتے ہیں۔ یہ رجسٹریشن ایسے لازمی ہوتی ہے جیسےاسکول میں داخلہ ہو رہا ہو اور رشتہ پکا ہونے پر فیس چارجز علیحدہ ۔


ادائیگی وہ تو فوراً ہو گی۔ خواہ بیل منڈھے نہ چڑھے۔ بعض عقل سے پیدل خواتین گریجویٹ لڑکی کے ہاں میٹرک پاس لڑکے کا میچ فٹ کروانے کی بے تُکی سعی کرکے صرف اپنے نمبر پورے کرتی ہیں۔''ارے میں نے آپ کو دس رشتے دکھائے، مجال ہے کوئی ایک بھی بھایا ہو‘‘۔

آج سے تقریباً 15 سال قبل انہیں فون کے بل کا خرچہ بھی اٹھانا پڑتا تھا اب مطلوبہ سہولت واٹس ایپ نے پوری کر دی ہے۔ یہ گروپ بنا لیتی ہیں اور پوری کی پوری چین ہوتی ہے۔ لڑکے، لڑکیوں کی تصاویر ان گروپس میں شادی ہونے کے بعد بھی مٹر گشت کرتی رہتی ہیں۔ بسا اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ دو رشتہ کروانے والی پارٹیز کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو رشتے میں بدگمانیاں پیدا کرتے ہوئے رشتہ خود ہی ختم کروا دیتے ہیں۔


یہ سب تماشہ تب سے پروان چڑھا ہے جب خاندانوں کے درمیان اسٹیٹس کے نام پر خود غرضی کا دور دورہ ہوا ہے تو نتیجتاً اس طرح میچ میکرز کی دکانیں سجنے لگی ہیں۔

شادی کو مشکل ترین بنایا جا رہا ہے۔ پہلے دور میں ڈیمانڈز کی بھرمار نہیں تھی۔ افسوس معاشرے کی اکثریت غلط ڈگر پر چل نکلی ہے۔ لڑکی والوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا ہو اور جتنا وہ ہینڈ سم ہو اتنی سیلری بھی ہینڈسم ہی ہو۔ اپنا گھر، لگژری گاڑی ہو، چھوٹا خاندان ہو جبکہ لڑکے والوں کے مطالبات ہوتے ہیں کہ لڑکی کی عمر 18 سال ہو اور اس نے ماسٹرز کیا ہو۔ گوری چٹی، لمبی دبلی پتلی ہو اور روٹی تو گول ہی بناتی ہو۔ لہٰذا اب پاکستانی معاشرے میں ڈیجیٹل عہد میں ٹنڈر، ڈیٹنگ ایپس اور مزمیچ جیسی کمپنیز متعارف کروائی جا رہی ہیں جہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو گھر بیٹھے سکرین کی مدد سے ہی لائف پارٹنر مل جاتے ہیں۔ کیا واقعی ان سائٹس و ایپس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟


بلاتردد لڑکیوں کے لیے رشتے والوں کے سامنے بار بار چائے ٹرالی سجانا کسی مہم سے کم نہیں وہ ایسے رشتہ کلچر سے چھٹکارا چاہتی ہیں، جہاں لوگ آئیں اور دیکھ کر جاتے جائیں۔ لیکن یاد رکھیے سوشل میڈیا پر سب کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ ایسے معاملات میں بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔ اکثر لوگوں نے غلط بائیو، کسی اور کی تصویر اور فیک مواد شیئر کیا ہوتا ہے، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بات چیت آپ کو ہراسانی کی صورت میں بھاری پڑ سکتی ہے۔ کچھ سفلہ مزاج لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد ڈبل پلے کے ذریعے دوسروں کو محض بے وقوف بنانا ہوتا ہے۔

"سکپ دا رشتہ آنٹی" مہم چلانے کا کوئی فائدہ نہیں جب آپ کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر الّو بنایا جا رہا ہو۔ نوجوانوں اور ان کے والدین سے گزارش ہے کہ رشتہ چاہے ایپس کے ذریعے طے کریں یا روایتی میچ میکر خواتین کے ذریعے۔ بس معلومات کی چھان پھٹک کے بعد ''ہم آہنگی‘‘ کو ترجیح دیں۔ قابلیت پر مہر لگائیں۔ نسلوں کی تعمیر اور مثبت سوچ میں ہی معاشرے کا بقا ہے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔