کیا پاکستان غذائی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟

پاکستان موسمی تغیرات کے مضر اثرات، تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے غذائی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق فوری ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال ابتر ہو سکتی ہے۔

کیا پاکستان غذائی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟
کیا پاکستان غذائی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟
user

Dw

موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان آج کل شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت پچاس سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ اس صورتحال میں زرعی رقبوں کے لیے ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہیں ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔ ماضی میں گندم میں خودکفیل رہنے والا ملک دوسرے ملکوں سے گندم درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

پاکستان میں کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم فارمر ایسوسی ایٹس پاکستان کی مرکزی رہنما اور جنوبی پنجاب کی ایک ترقی پسند کاشتکار رابعہ سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمی تغیرات، پانی کی عدم دستیابی، ڈیزل اور کھادوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے زرعی سیکٹر میں ایک بحران کی سی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔


شدید گرمی کی لہر بھی ایک وجہ

رابعہ کے بقول اس سال مارچ کے مہینے میں ریکارڈ گرمی پڑنے سے گندم کی گروتھ درست طرح سے نہیں ہو سکی اور گندم کی بالیوں سے دانے پکنے سے پہلے ہی گر کر ضائع ہو گئے۔ اسی طرح آم کے پودوں پر بھی گرمی جلد آ جانے کی وجہ سے بور نہیں بن پایا اور فصل کی بڑی مقدار ضائع ہو گئی۔ یہی حال بہت سی دیگر فصلوں کا بھی ہو رہا ہے۔

رابعہ نے مزید کہا، ''شدید گرمی کی وجہ سے ڈیم ڈیڈ لیول پر پہنچے ہوئے ہیں دریاوں اور نہروں سے مطلوبہ مقدار میں پانی نہ ملنے سے بھی فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں اس سال مطلوبہ مقدار میں گندم پیدا نہیں ہو سکی اور حکومت دوسرے ملکوں سے گندم حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘


پانی کی کمی بھی ایک مسلہ

ایک اور تنظیم کسان بورڈ پاکستان کے سینئر نائب صدر عبدالجبار خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک طرف شدید گرمی کی وجہ سے نہروں میں پانی نہیں آ رہا ہے تو دوسری طرف دیہات میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے ٹیوب ویل کے پانی کی دستیابی کو مشکل بنا دیا ہے۔

ان کے بقول ڈیزل زرعی سیکٹر میں استعمال ہونے والا ایک اہم عنصر ہے۔ لیکن اس کی قیمتوں میں اضافے نے کاشتکاری کی لاگت کو بہت بڑھا دیا ہے اور کاشتکار کسی نقصان سے بچنے کے لیے اپنی کم زمینوں پر فصلیں کاشت کر رہے ہیں۔


عبدالجبار خان نے یاد دلایا کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں یا ان کو کمرشل انڈسٹریاں خرید رہی ہیں، اس لیے زرعی رقبہ بتدریج کم ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ کو ماضی میں بریڈ باسکٹ کہا جاتا رہا ہے۔ ادھر پہاڑی علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سی چراگاہیں بری طرح سے متاثر ہو رہی ہیں اور کئی علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر رکھی ہے۔


گندم کی پیداوار بھی متاثر

ایک انگریزی اخبار سے وابستہ سینئر صحافی احمد فراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں حکومت کی طرف سے اس سال گندم کا پیداواری ہدف تقریبا انتیس ملین ٹن مقرر کیا گیا تھا لیکن گندم کی پیداوار اس ٹارگٹ سے دو میلین یعنی بیس لاکھ ٹن کم ہوئی جبکہ پاکستان کی ضرورت تیس ملین ٹن سے زیادہ ہے، '' یہ اعدادوشمار سرکاری ہیں لیکن بحران کی شدت اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں احمد فراز نے بتایا کہ پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت بائیس سو روپے فی من مقرر کی گئی ہے اور اس پر بھی حکومت کو آٹے کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سترہ ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دینا پڑ رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر پاکستانی حکومت آج کے ریٹ پر گندم امپورٹ کرے تو یہ پاکستان تریپن سو روپے فی من کے حساب سے پہنچ سکے گی۔ اس پر حکومت کو کتنی سبسڈی دینی پڑے گی اورغریب کے لیے پہلے سے مہنگی روٹی اور نان کی قیمتیں کہاں پہنچیں گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔


گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق بھوک کے شکار دنیا کے ایک سو سولہ ممالک میں سے پاکستان بانوے نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کی مطلوبہ ضرورت کے مطابق خوراک میسر نہیں ہے۔

پاکستان کی حکومت مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے قلیل المدتی، وسط مدتی اور طویل المدتی پالیسیاں تشکیل دے رہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر فوڈ سیکورٹی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے تحقیقاتی کام تیز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے لیکن پاکستان میں تحقیقی میعار پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں کے لیے اس چیلنج سے نبردآزما ہونا آسان نہیں ہوگا۔


مشترکہ کوششوں ناگزیر ہیں، بلاول بھٹو

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین روس جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوراک کے عالمی بحران کا مقابلہ کرنے اور دنیا کے غریب ملکوں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

بلاول نے عندیہ دیا ہے کہ خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شہریوں کے لیے خوراک کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پاکستانی حکومت آئی ایم ایک کو اپنی سخت شرائط میں نرمی لانے کا کہہ سکتی ہے۔


حل مشکل ہے ناممکن نہیں

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا کرنا چاہیئے، رابعہ سلطان نے بتایا کہ اس کا حل اتنا آسان نہیں ہے۔ ان کے بقول بدقسمتی سے موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی وجوہات میں پاکستان کا حصہ بہت ہی کم ہے لیکن پاکستان ان دس ملکوں میں شامل ہے، جن کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔

رابعہ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تندیلیوں کے معاملے کو سنجیدگی سے لے، زرعی فصلوں کی زیادہ قوت برداشت کی حامل نئی اقسام کو متعارف کروایا جائے، زرعی محقق فصلوں کے لیے ایسا پیٹرن تجویز کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت کر سکے۔


عبدالجبار خان کے مطابق حکومت زرعی سیکٹر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دیرپا پالیسیاں بنائے اور عالمی تاجروں کو پیسے دینے کی بجائے پاکستانی کاشتکار کو سہولتیں دی جائیں تاکہ وہ نیشل فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */