کیا ایران ’حجاب قانون‘ میں تبدیلی کرنے جا رہا ہے؟

ایران کی پارلیمان اور عدلیہ اُس قانون پر نظرثانی کر رہی ہیں، جس کے تحت خواتین کے لیے سر ڈھانپنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

کیا ایران ’حجاب قانون‘ میں تبدیلی کرنے جا رہا ہے؟
کیا ایران ’حجاب قانون‘ میں تبدیلی کرنے جا رہا ہے؟
user

Dw

ایران کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ ملکی عدلیہ اور پارلیمان 'حجاب قانون‘ کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں۔ کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی مہسا امینی کو اسی قانون کے تحت اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا اور پولیس حراست میں اس کی مبینہ ہلاکت کے بعد سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس دوران نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں موجود ایرانی خواتین نے اسکارف جلاتے اور اپنے بال کاٹتے ہوئے اس قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ دریں اثناء ایران کے مختلف علاقوں میں خواتین نے احتجاجاﹰ بالوں کا ڈھانپنا بند کر دیا ہے، خاص طور پر دارالحکومت تہران کے جنوبی علاقوں میں، جنہیں فیشن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ انقلاب ایران کے چار برس بعد اپریل 1983ء میں تہران حکومت کی جانب سے ہیڈ اسکارف لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔


محمد جعفر منتظری کا قُم شہر میں کہنا تھا، '' پارلیمان اور عدلیہ دونوں ہی مل کر اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں کہ آیا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘‘۔ تاہم اسنا نیوز ایجنسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس قانون میں کیا تبدیلی کی جا رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ''جائزہ ٹیم نے بدھ کو پارلیمنٹ کے ثقافتی کمیشن سے ملاقات کی ہے اورایک یا دو ہفتوں میں اس کے نتائج سامنے آ جائیں گے‘‘۔

دوسری جانب صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ ایران کی جمہوریت اور اسلامی بنیادیں آئینی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''لیکن آئین کو نافذ کرنے کے ایسے طریقے ہیں، جو لچکدار ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کا یہ تبصرہ ایران کے سرکاری ٹیلی وژن پر بھی نشر کیا گیا ہے۔


ایران میں جب سے لازمی حجاب کا قانون لاگو کیا گیا ہے، اس کے بعد سے وہاں خواتین کے لباس میں تبدیلی آئی ہے۔ زیادہ تر نوجوان خواتین تنگ جینز اور رنگ برنگے اسکارف پہنتی ہیں۔

دوسری جانب ایران نے پہلی مرتبہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ میزان نیوز ایجنسی کے مطابق ایران کے ایک سرکاری سکیورٹی ادارے نے کہا ہے کہ حالیہ فسادات کے دوران ملک بھر میں دو سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق اب تک 470 سے زائد ایرانی شہری اپنے زندگیاں گنوا بیٹھے ہیں۔


دریں اثناء ایرانی کارکنوں نے ملک بھر میں مزید احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی ہے۔ تہران حکومت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان مظاہرین کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور اس کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔