کیا خود انحصاری کی کوشش نے بھارتی دفاع کو خطرے میں ڈال دیا ہے؟

غیر ملکی ہتھیاروں پر حد سے زیادہ انحصار سے پریشان بھارت نے مختلف ہتھیاروں کے سسٹمز اور ساز و سامان کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔

کیا خود انحصاری کی کوشش نے بھارتی دفاع کو خطرے میں ڈال دیا ہے؟
کیا خود انحصاری کی کوشش نے بھارتی دفاع کو خطرے میں ڈال دیا ہے؟
user

Dw

ہندوتوا کی علمبردار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نریندر مودی سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ہتھیاروں اور دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں (آتم نربھر) ’’خود انحصار‘‘ بننے پر مسلسل زور دیتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے سن 2020 میں کورونا وائرس کی وبا کے اقتصادی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا، ''آج دنیا کی حالت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خود انحصار بھارت ہی ہمارے لیے واحد راستہ ہے‘‘۔


اس کے بعد سے بھارت نے فوڈ پروسیسنگ، الیکٹرانکس اور فوجی ساز و سامان سمیت مختلف شعبوں میں خود انحصاری پر توجہ مرکوز کی ہے۔ لیکن ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کو ملک میں ہی تیار کرنےکے لیے ایک طویل راستہ طے کرنا ہو گا۔ بھارت اس وقت دنیا میں ہتھیاروں کے پانچ سب سے بڑے درآمدکنندگان میں شامل ہے۔

مقامی سطح پر تیاری اور پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بھارت نے کئی طرح کے فوجی ساز و سامان اور متعدد سسٹمز کے درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ وزارت دفاع نے ان اشیاء کی فہرستیں بھی تیار کر لی ہیں، جنہیں بھارتی مسلح افواج کو مقامی صنعت کاروں سے خریدنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔


بزنس نیوز ایجنسی بلوم برگ نے ستمبر میں ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت اپنی دفاعی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مقامی طور پر خاطرخواہ ہتھیار تیار نہیں کر پا رہا اور مودی کی جانب سے ان کی'میک ان انڈیا‘ پالیسی کے تحت بھارت کو خود انحصار بنانے پر زور دینے کی وجہ سے اس ملک کو ہتھیاروں کی قلت کا سامنا ہے۔ اس سے اس بات کے خدشات بڑھ گئے ہیں کہ آیا خود انحصاری سے بھارت کے سب سے طاقت ور پڑوسیوں چین اور پاکستان کی جانب سے درپیش خطرات کے مدنظر اس کی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں؟

بھارت خود انحصاری پر زور کیوں دے رہا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مسلح افواج کے لیے خود انحصاری پر زور دینے کی ایک واضح وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس عالمی مارکیٹ سے خریداری کے لیے فنڈز نہیں ہیں اور وہ اتنی قیمت ادا نہیں کر سکتا، جو ممالک انتہائی اعلیٰ اور جدید ترین ٹیکنالوجی والے ہتھیاروں کے لیے وصول کرتے ہیں۔


بھارتی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''عالمی کمپنیوں سے ہتھیار خریدنے کے لیے بڑے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کے پاس خود ہتھیار بنانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا ہے‘‘۔ شکلا کا کہنا تھا کہ لیکن ایسا کرنے کے لیے بھارت کو اپنی تحقیق و ترقی کی صلاحیتوں نیز پرائیوٹ مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تاہم خودانحصاری کی نئی دہلی کی موجودہ کوششیں کئی دہائیاں پرانی ثابت ہو سکتی ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اسی وقت ہونا چاہیے تھا، جب بھارت نے پہلی مرتبہ اپنی معیشت کو کھولنا شروع کیا تھا۔ نئی دہلی میں 'سینٹر فار فائر پاور اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ ایئر مارشل انیل چوپڑا کا کہنا تھا، ''کچھ ایسی ٹکنالوجیز ہیں، جو چند ملکوں نے اپنے پاس محفوظ رکھی ہیں۔ ہم بھارت میں پچھلے 35 برسوں سے ہوائی جہاز کا انجن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور کوئی مدد کرنے کو بھی تیار نہیں ہے‘‘۔


ایئرمارشل چوپڑا کا مزید کہنا تھا،''وہ ممالک، جنہوں نے ہمیں انجن ٹیکنالوجی کی پیش کش کی ہے، وہ اس کے لیے اتنی زیادہ قیمت کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو بہت ہی زیادہ ہے اور اس کے باوجود وہ ہمیں اپنی ٹیکنالوجی کا 100 فیصد نہیں دیں گے۔ وہ ہمیں اپنی ٹیکنالوجی کا کچھ حصہ ہی دے سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ''بھارت آٹو موبائل، فارماسیوٹیکل، سافٹ ویئر اور دیگر بہت سے شعبوں میں عالمی لیڈر بننے کے قابل ہو گیا ہے۔ لیکن اس سمت میں کام کا آغاز 20 یا 25 برس پہلے ہی ہو چکا تھا‘‘۔

بڑی مسلح افواج کے رکھ رکھاؤ کا مسئلہ

چوپڑا کا کہنا تھا کہ بھارت کو بالخصوص چین اور پاکستان سے خطرات کا سامنا ہے اور دونوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کے علاوہ بہت مضبوط مسلح افواج بھی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں دو انتہائی طاقت ور پڑوسیوں سے مقابلہ ہے، جن کا ہمارے ساتھ اختلاف رائے ہے اور اسی لیے بھار ت کو عسکری طور پر مضبوط ہونا پڑے گا۔ ہمارے پاس دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج ہے، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں سب سے بڑی بحریہ ہے۔ اس لیے ان مسلح افواج کی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے لیے خود انحصاری بہت ضروری ہے‘‘۔


انہوں نے اس جانب بھی نشاندہی کی کہ بھارت کو ہتھیار سپلائی کرنے والے دونوں ممالک یوکرین اور روس کے درمیان جنگ نے لاجسٹک سلسلے کو متاثر کیا اور مقامی خریداری کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ چوپڑا کا کہنا تھا،''ہم یوکرین سے بہت سارے میرین انجن خرید رہے ہیں۔ ہمارے فوجی ٹرانسپورٹ طیارے، انٹونوف این 32، وہاں سے آئے ہیں۔ اگر وہاں جنگ ہوتی رہی اور ان کے فیکٹریوں پر بمباری کی گئی تو ہماری لاجسٹک کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا‘‘۔

کس طرح کی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟

دفاعی تجزیہ کار شکلا کا کہنا ہے کہ دفاعی شعبے میں خود انحصاری کے حوالے سے بھارت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ملک میں سائنسی اور تکنیکی ترقی ابھی بھی کم ہے۔ شکلا نے کہا،''بھارت جب تک ہتھیار بنانا شروع نہیں کرتا اور سائنسی میدان میں اعلیٰ معیار حاصل نہیں کر لیتا، اس وقت تک اس کے سائنس دان اور انجینئر اگلے مرحلے کی جانب نہیں بڑھ سکتے، جو ایسے موثر ہتھیار بنا سکیں، جو جدید میدان جنگ میں فتح حاصل کر سکتے ہوں‘‘۔


انہوں نے مزید کہا، ''ہم صرف فرسودہ ٹیکنالوجی والے ہتھیاروں اور آلات کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔ ٹیکنالوجی کی سیڑھی پر چڑھنے اور معیاری ہتھیار تیار کرنے میں وقت اور سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے، جو جدید میدان جنگ میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے‘‘۔ تاہم چوپڑا کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ فیصلہ سازی کی سیڑھی میں سب سے اوپر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسر شاہی کی جانب سے تاخیر خود انحصاری کی طرف بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

چوپڑا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''عوامی بیان بازی اور اخبارات میں خبریں شائع کرانا ایک بات ہے لیکن جب تک مطلوبہ چیز سامنے نہ ہو، سب کچھ باتیں ہی باتیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے پیسے دیے جارہے ہیں؟ کیا فیصلے جلد کیے جا رہے ہیں؟ جو کمپنیاں دفاعی ساز وسامان تیار کرتی ہیں، مثلاً ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ اور ڈی آر ڈی او، وہ کیا بہت بڑھ چڑھ کر دعوے نہیں کر رہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے زیادہ باتیں نہیں کر رہی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں، جو پوچھے جانے چاہئیں۔"


کیا ہتھیاروں کی کمی ہے؟

بلوم برگ نے ستمبر میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت کو سن 2026ء تک ہیلی کاپٹروں اور سن 2030ء تک جنگی طیاروں کی شدید کمی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ چوپڑا کا خیال ہے کہ سن 2025ء کے اوائل تک بھارت کو جیٹ طیاروں کی کمی کے حوالے سے ''بحرانی صورت حال‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا،''ہم جنگی طیاروں کی تعداد کے لحاظ سے بری طرح پیچھے ہیں کیونکہ مگ 21 بائزن جنوری 2025 تک ریٹائر ہو جائیں گے۔ جب کہ ہمارے پاس ان کے چار اسکوارڈن کو پورا کرنے کے لیے آج تک کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ جو نئے 114جیٹ طیارے آنے والے ہیں، اگر وہ تمام آئے تو ان کے آنے میں چھ سے سات برس لگ جائیں گے‘‘۔


ان کا مزید کہنا تھا، ''دو دیگر شعبے، جہاں بحران کی صورت ہے، وہ ہیں ہوائی جہاز وارننگ اور کنٹرول سسٹم (اواکس) اور فضا میں ایندھن بھرنے والے جہاز۔ یہ دونوں ہی ہماری سرحدوں پر موجود ہمارے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔ پاکستان کے پاس ہمارے مقابلے میں کہیں زیادہ اواکس طیارے ہیں‘‘۔ شکلا نے ہوائی جہاز کے انجنوں کے لیے اہم پرزے تیار کرنے میں بھارت کی نااہلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں کلیدی مسئلہ ٹیکنالوجی کا فرق ہے۔

انہوں نے کہا،''جب ایرو انجنوں کی بات آتی ہے، جو جدید جنگی جہازوں کی قیمت کا ایک تہائی ہوتے ہیں، تو ہمارے پاس انہیں تیار کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اس لیے ہمیں انہیں درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اور ہمارے پاس جو ہتھیار ہیں وہ عالمی معیار کے نہیں ہے، اور نہ ہی اس سطح کے ہیں جو میدان جنگ میں فوری برتری دلا سکیں۔ اس لیے فوج کو کم معیار کے طیاروں اور گاڑیوں کے ساتھ ہی لڑنا پڑتا ہے‘‘۔


ریٹائرڈ کرنل اجے شکلا تاہم ایئر مارشل انیل چوپڑا کی اس بات سے متفق ہیں کہ اگر حکومت فوجی خود انحصاری حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسے ہی سرمایہ کاری کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */