پاکستان میں کاسمیٹک سرجریز کا بڑھتا رحجان

پاکستان میں کاسمیٹک سرجریز کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اپنے خدوخال تبدیل کر کے کسی اور جیسا خوبصورت دکھنے کے لیے نہایت مہنگے ٹریٹمنٹس کروانے لگے ہیں۔

پاکستان میں کاسمیٹک سرجریز کا بڑھتا رحجان
پاکستان میں کاسمیٹک سرجریز کا بڑھتا رحجان
user

Dw

پُر کشش نظر آنے کی دوڑ میں ہر شخص صحیح و غلط کی تفریق کو مٹا بیٹھا ہے۔ پاکستان میں صاحب حیثیت لوگ دھڑا دھڑ کاسمیٹک سرجریز کرا رہے ہیں، متوسط طبقے والے ناتجربہ کار ڈاکٹروں اور سستے بیوٹی پارلرز کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں جبکہ غریب ان سرجریز کے زریعے خوبصورت ہونے کے خواب سجا رہے ہیں۔

پاکستان میں کاسمیٹک سرجریز کا رواج ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتا جا رہا ہے، جس کی ایک وجہ اس علاج کا سستا ہو کر متوسط طبقے کی پہنچ میں آنا بھی ہے۔ اسی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو دیکھ کر بہت سے بیوٹی پارلرز اور غیر تربیت یافتہ ڈاکٹرز معصوم لوگوں کو نہ صرف بیوقوف بنا رہے ہیں بلکہ بہت سی متعدی بیماریاں بھی پھیلا رہے ہیں۔


ہر کوئی خوبصورت کیوں لگنا چاہتا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب کو خوبصورت کیوں لگنا ہے؟ ہمارے اردگرد ایسے کیا عوامل ہیں جو جازب نظر دکھنے کے لیے لوگوں کو ڈاکٹروں کی چھریوں تلے دھکیل رہے ہیں اور لوگ اپنی زندگی اور صحت کی پرواہ کیے بغیر اس دوڑ میں شامل ہیں یا شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہی سوالات جب ڈاکٹر فرزانہ باری سے پوچھے گئے، جو کہ ایک سوشیالوجسٹ ہیں اور معاشرے میں بدلتے رویوں پر گہری نظر رکھتی ہیں، تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خوبصورت نظر آنے کی چاہ سب میں ہوتی ہے مگر خوبصورت بننے کے لیے کاسمیٹک سرجریز کرانے میں خواتین کی شرح مردوں کی نسبت زیادہ دکھائی دیتی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''خواتین میں صنفی شعور کی کمی ہے اور وہ پدرشاہی معاشرے میں ایک چیز کے طور پر دیکھی جاتی ہیں۔ یہ احساس کمتری ان کے اندر رچ بس گیا ہے کہ وہ خود کو مرد کے معیار خوبصورتی پر خود کو فٹ کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب اس کی خود اعتمادی کی کمی اور مرد پر اس کا انحصار ظاہر کرتا ہے۔‘‘


ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ ظاہری مصنوعی خوبصورتی کا عمل بڑھتا جا رہا ہے جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لائے بغیر اس وبا سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔

میڈیا کا کردار

انسانی رویوں کو بدلنے میں میڈیا کا کردار ہمیشہ سر فہرست رہا ہے کیونکہ میڈیا مختلف تکنیکس کے زریعے صارفین کی کسی بھی چیز سے متعلق سوچ کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا اور خاص طور پر ٹک ٹاک بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور جب غور کیا جائے تو ہر دوسری وڈیو میں بندہ ڈاکٹر کا مخصوس لباس پہنے کاسمیٹک سرجری ، رنگ گورا کرنے والی کریموں، ٹیکوں اور دوائیوں کی بات کرتا دکھائی دیتاہے۔ کچھ حضرات تو آپریشن تھیٹر والی ٹوپی پہنے 'ناظرین کو ٹوپی پہناتے‘ پائے جاتے ہیں۔


اسی حوالے سے امریکی پروفیسر جارج گاربنر کی ایک تھیوری (کلٹیویشن) کے مطابق میڈیا خاص طور پر ٹیلی وژن پر کسی بھی پیغام یا اشتہار کو بار بار دہرائے جانے سے لوگوں کے دماغ اس چیز کو قبول کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اس معلومات کو اس طرح سے دہرایا جاتا ہے کہ لوگ اس پر یقین کرنے لگتے ہیں اور اسےسچ سمجھنے لگتے ہیں چاہے حقیقت اس کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔

پاکستان میں قانون کیا کہتا ہے؟

اسلام آباد ہیلتھ ریگولیرٹی اتھارٹی کے سی ای او، ڈاکٹر قائد سعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ رواج پاکستان میں بہت عام ہو چکا ہے اس لیے حکومت نے اس کو منظم کرنے کے لیے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو حرکت میں لایا ہے اور اس کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن بنائے جا رہے ہیں۔ موجودہ آئی ایچ آر آر قانون 2018 ء کے مطابق ایک ڈاکٹر اس طرح کی سرجریز کر سکتا ہے مگر اس کو مخصوص مہارت کے کورسس کرنے ہوں گے جس کے لیے پی ایم ڈی سی کچھ ادارے بنا رہا ہے۔


جہاں تک بات ہے بیوٹی پارلرز کی تو ان کے لیے ایسا کوئی بھی عمل غیر قانونی ہے اور رپورٹ ہونے کی صورت میں جرمانہ، قید اور لائسنس کی منسوخی عمل میں لائی جاتی ہے۔

جب اسلام آباد کے ایف ٹین سیکٹر میں واقع نائلہ بیوٹی سلون سے رابطہ کیا گیا تو ان کی سربراہ نائلہ حق کا کہنا تھا کہ وہ ایک سرٹیفائیڈ بیوٹیشن ہیں اور بھوؤں کو جازب نظر بنانے کے لیے مائکرونیڈلنگ کرتی ہیں مگر سوئی ہر بار نئی استعمال کرتی ہیں اور بلڈ پریشر اور شوگر کے ٹیسٹس کے بعد ہی یہ پروسیجر کرتی ہیں۔ انکا کہنا تھا، 'میں اس شعبے میں بہت سی ایسی بیوٹیشنز کو جانتی ہوں جو بغیر کسی تعلیمی قابلیت اور تجربے کے فلرز اور بوٹوکس کرتی ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے کسی ڈاکٹر کو اپنے ساتھ ملا لیتی ہیں کہ وقت پڑنے پر انکا نام استعمال کیا جا سکے۔‘


اسلام آباد میں ایک ڈرماٹالوجسٹ جو ایف سکس میں اپنا کلینک چلاتی ہیں، نے نام نہ ظاہر کرنے کی بنیاد پہ بتایا کے اب ان کے پاس کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کے بہت سے مریض آتے ہیں اور انہں حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اپنے اچھے خاصے خوبصورت خدوخال کو تبدیل کر کہ اسے کسی نہ کسی اور جیسا بنوانا چاہتے ہیں۔ وہ اکثر کسی شوبز ستارے کی تصویر اپنے ساتھ لاتے ہیں اور اس جیسا دکھائی دینا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا،''میرے پاس کچھ ایسے کیسز بھی آتے ہیں جن کی پرانی سرجریز خراب ہو چکی ہوتی ہیں کیونکہ وہ کسی غیر تربیت یافتہ ڈاکٹر کے ہاتھ سے ہوئی ہوتی ہیں۔‘‘

شوبز کے ستارے ہمارے معاشرے کے رول ماڈلز ہوتے ہیں اور لوگ ان جیسا بننا یا دکھنا چاہتے ہیں اس لیے ان جیسے کپڑے، زیورات یا بال بناتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی طرح یہ پردہ اسکرین پر جلوے بکھیرتے ستارے بھی آج کل انہی کاسمیٹک سرجریز کی دوڑ میں مصروف عمل ہیں اور کئی اپنی جانوں اور قدرتی حسن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔


چین کی مشہور اداکارہ و گلوکارہ گاؤ لیو کوبھی ناک کی پلاسٹک سرجری مہنگی پڑی۔ چینی اداکارہ نے شوبز سے ایک طویل عرصے پر غیر حاضری کے بعد سوشل میڈیا صارفین کو وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خوبصورت دکھنے کے لیے ناک کی سرجری کروائی تھی، جو عمل تقریباً چار گھنٹے تک کا تھا۔ وہ کہتی ہیں،'' میں نے سوچا کہ اس کے بعد میں حسین بن جاؤں گی لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ چار گھنٹے میرے لیے ڈراؤنے خواب کی ابتداء ثابت ہوں گے۔‘‘ اس کے بعد ان کی ناک بہت بگڑ گئی۔

اسی طرح بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی ناک کی سرجری کرائی تھی لیکن ڈاکٹر کی غلطی کی وجہ سے ان کیناک کی ہڈی خراب ہوگئی اس کے بعد وہ جب بھی آئینہ دیکھتی تھیں تو انہیں اپنا چہرہ کسی اجنبی کا چہرہ لگتا تھا اور انہیں اپنے اس نئے چہرے سے مانوس ہونے میں کئی سال لگے۔ ایک خبر کے مطابق پریانکا کی سرجری خراب ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے 7 فلمیں بھی نکل گئی تھیں۔


بھارتی شوبز کی ابھرتی اداکارہ چیتنا راج پلاسٹک سرجری کے دوران ہلاک ہوگئ تھیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق 21 سالہ اداکارہ کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر شیٹی کے کاسمیٹک سینٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے چیتنا راج کی موت ہوئی، مبینہ طور پر چیتنا کے وزن میں کمی کے لیے سرجری ہوئی تھی، جس کے فوراً بعد انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اداکارہ کے پھیپھڑوں میں سیال جمع ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ سانس لینے میں دشواری کا شکار ہو گئی تھی۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں دنیا بھر میں موجود ہیں مگر پھر بھی اس رواج میں اضافہ ایک تشویشناک بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔