روسی جیلوں میں تشدد اور خوف کی فضا

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی جیلوں میں تشدد پھیلتا جا رہا ہے۔ متاثرین نے ٹارچر کے خوفناک واقعات کا دل دہلا دینے والے انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ایسے تشدد کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔

روسی جیلوں میں تشدد اور خوف کی فضا
روسی جیلوں میں تشدد اور خوف کی فضا
user

Dw

روسی جیلوں میں تشدد سے متاثر ہونے والے درجنوں قیدیوں اور ان کے وکلا نے روسی حکام پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جیلوں میں رونما ہونے والے پرتشدد حالات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور جیل کے عملے پر عائد ہونے والے الزامات سے بھی انکاری ہوتے ہیں۔ ایسے الزمات کا شور اس وقت سامنے آیا جب ارکوٹسک علاقے کی جیل میں چار افراد پر کیے گئے تشدد کے الزامات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ روسی جیلوں میں تشدد سے متاثر ہونے والے قیدیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

جیلوں میں ہونے والے تشدد کے ثبوت

ایک سابقہ روسی قیدی سرگئی ساویلیئف نے چالیس گیگا بائٹس اور کئی تصاویر عام کی ہیں جن میں جیلوں میں قیدیوں پر روا رکھا جانے والے تشدد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ظلم و جبر کے حوالے سے روس کے انسانی حقوق کے سرگرم گروپ گُولاگُو ڈاٹ نیٹ نے بھی آواز بلند کر رکھی ہے۔


سامنے آنے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کس حد تک انتہائی ناروا سلوک استوار رکھا گیا ہے۔ یہ ناروا سلوک صرف ایک جیل ارکوٹسک میں نہیں ہے بلکہ سبھی جیلیں ایسا پرتشدد کلچر اپنائے ہوئے ہیں۔

ایسی اطلاعات کے بعد ہی گزشتہ برس نومبر میں روسی جیلوں کے وفاقی محکمے کے سربراہ الیکسانڈر کلاشنیکوف کو جبری طور پر اپنے منصب سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ کئی جیلوں کے انتطامی افسران کو بھی ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا مگر اصل مسئلہ جوں کا توں رہا یعنی تشدد جاری کرنے کا معاملہ نظرانداز کر دیا گیا۔


تشدد اور استحصال

روس میں قیدیوں کے حقوق کی سرگرم تنظیم کو حکام نے غیر ملکی ایجنٹوں کا ٹولہ قرار دے رکھا ہے۔ دوسری جانب ڈٰی ڈبلیو کو چند سابقہ قیدیوں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ جیلوں میں استحصال اور تشدد ایک عمومی عمل ہے۔ ان قیدیوں کا تعلق انگارسک جیل سے تھا ور وہاں ہونے والے قیدیوں کے ہنگامے کو انتہائی جابرانہ انداز میں نمٹایا گیا تھا۔ حکومتی شدید ردِعمل کے تناظر میں ان سابقہ قیدیوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اپنی شناخت مخفی رکھی اور نام تبدیل کر دیے۔

ایک سابقہ قیدی دیمتری (نام تبدیل ہے) کا کہنا ہے کہ آدھی رات کو اسے اور چند دوسرے قیدیوں کو جیل کے کمرے سے نکال کر کنکریٹ پر الٹا لٹا دیا گیا اور ہاتھ سر کے پیچھے رکھوا دیے گئے۔ وہ صبح نو بجے تک اسی حالت میں رہے اور ان کو کھڑا نہیں ہونے دیا گیا۔ کئی قیدیوں نے پیشاب بھی اسی حالت میں کر دیا۔ دیمتری کے مطابق اسی حالت میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور خود اس کی پسلی کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ دوسری قیدیوں نے بھی تشدد کے ایسے واقعات بیان کیے۔


جبری اعتراف

کئی مصدقہ ذرائع کے مطابق مختلف قید خانوں میں احتجاج میں شریک ہونے والوں کو دوران قید وقفے وقفے سے ٹارچر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ قیدی جو جیل حکام کے ساتھ تعاون کریں انہیں کسی حد تک سہولت میسر ہوتی ہے اور جو انکار کر دیں وہ شدید تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔

ایسے ہی قیدیوں نے انگارسک جیل میں ہنگامہ آرائی کی تھی۔ ان ہنگامہ کرنے والے قیدیوں کو صرف پیٹا ہی نہیں گیا بلکہ سوئیاں انکے ناخنوں میں گھسیڑ دی گئی تھیں اور ان کے پاؤں پر تاروں سے مارپیٹ بھی کی گئی اور بعد میں وہ پاؤں پر کھڑے ہوتے وقت شدید درد اور تکلیف سے گزرتے تھے۔


دیمتری کے مطابق انگارسک جیل میں ایک سینیئر محافظ کا روزانہ کا معمول تھا وہ ہر صبح ہنگامے میں شریک قیدیوں کو بلاوجہ مارا پیٹا کرتا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ انگارسک جیل میں ہنگامے کے بعد کئی قیدیوں کو کم از کم چھ ماہ تک رشتہ داروں سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔ ستمبر سن 2020 میں پندرہ قیدیوں سے جبری اعترافات کے بعد الزمات عائد کیے گئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔