فلسطینیوں کے اسکولوں میں کمی، کلاس رومز میں بچے دوگنا

فلسطینی مہاجرین کے لیے قائم اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی کو مالی امداد کی کمی کا سامنا ہے۔ اس باعث اس ادارے نے مشرق وسطیٰ میں فلسطینی بچوں کے لیے قائم اسکولوں کو بند کرنا شروع کر دیا ہے۔

فلسطینیوں کے اسکولوں میں کمی، کلاس رومز میں بچے دوگنا
فلسطینیوں کے اسکولوں میں کمی، کلاس رومز میں بچے دوگنا
user

ڈی. ڈبلیو

امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی UNRWA کی امداد بند کرنے کے بعد اس ادارے کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی لیے ایجنسی کے اسکولوں کو کم کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ بند ہونے والے اسکولوں کے بچوں کی دوسرے اسکولوں میں منتقلی جاری ہے۔

مختلف اسکولوں کی بندش کے بعد جو بچے کھچے تعلیمی ادارے رہ گئے ہیں، اُن میں ہر کمرہٴ جماعت میں بچوں کی تعداد مقررہ حد سے کہیں زیادہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی کی نگرانی میں چلنے والے اسکولوں کے ایک ٹیچر ماجد جمیل کا کہنا ہے کہ بچوں کی تعداد بڑھنے سے کلاس کو کنٹرول کرنے اور پڑھانے کے شدید دباؤ کا سامنا ہے اور اس صورت حال میں تدریس مشکل تر ہو گئی ہے۔


ماجد جمیل حبرون یا الخلیل شہر میں لڑکوں کے ایک اسکول کے ٹیچر ہیں۔ اُن کے مطابق بچوں کی تعداد بڑھنے سے کلاس روم میں شور اور بچوں کے درمیان لڑائیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ دو بچوں والے ڈیسک پر چار بچے بٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک میز پر بچے مناسب انداز میں بیٹھنے سے قاصر ہیں اور ٹیچروں کو پوری توجہ سے تعلیم دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

امریکی امداد میں بھاری کٹوتی کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کو اپنے امور کو آگے بڑھانے میں انتہائی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ اس ادارے کی نگرانی میں چلنے والے کئی اسکولوں میں پانچ لاکھ کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں۔ یہ اسکول صرف فلسطینی علاقے ہی میں نہیں ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے اُن مختلف ملکوں میں بھی قائم ہیں، جہاں فلسطینی مہاجرین بے گھری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔


امدادی رقوم میں کٹوتی اور کفایت شعاری کی پالیسی کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے اسکولوں نے نئے بچوں کو داخل کرنے کا سلسلہ روک دیا ہے۔ بچوں کی تعداد بڑھنے سے نئے ٹیچروں کی بھرتی کا عمل بھی رک چکا ہے۔ اسی طرح نئے اسکول بھی قائم نہیں کیے جا رہے۔

عالمی ادارے کے نیویارک میں موجود نمائندے پیٹر مُلرین کا کہنا ہے کہ ایجنسی کے اسکولوں کے ایک کلاس روم میں اوسط طلبا تیس ہوتے تھے لیکن اب ان کی تعداد پچاس سے بڑھ گئی ہے۔ اسی باعث امتحانی پرچوں کو درست انداز میں دیکھنے کا عمل بھی ناقص ہو کر رہ گیا ہے۔ مُلرین کے مطابق اسکولوں میں تعلیم دینے کا سلسلہ رک چکا ہے اور جس سلسلے کو آگے بڑھنے تھا، وہ اب پیچھے جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔