نیپال میں گِدھ کے لیے ریسٹورانٹ

نیپال میں مختلف برادریاں نعشوں کو گِدھوں کی خوراک کا حصہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انسانوں میں خوف پیدا کرنے والا پرندہ اب ان نیپالی بستیوں کے لوگوں کا دوست بن چکا ہے۔

نیپال میں گِدھ جاتی کے لیے ریسٹورانٹ
نیپال میں گِدھ جاتی کے لیے ریسٹورانٹ
user

Dw

نیپال میں پوکھارا کا قصبہ گاہاچوک وادی میں میں واقع ہے یہ وادی کوہِ ہمالیہ کی ترائیوں یا قدموں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس علاقے میں اس پہاڑی ملک کی ان سات برادریوں میں سے ایک آباد ہے، جنہوں نے پہاڑی جنگلوں میں بسنے والی گِدھوں کے لیے خصوصی ریسٹورانٹس قائم کر رکھے ہیں۔

اس طرز عمل سے اس بلند و بالا پہاڑیوں میں گِرے ملک میں گِدھ کی کم ہوتی نسل میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ اضافہ بہت زیادہ نہیں لیکن گِدھوں کی نسل کو ناپید ہونے کا خطرہ اب ٹل گیا ہے۔


نیپال میں گِدھ نسل کے کم ہونے کی بڑی وجہ

سن 1990 کی دہائی میں نیپال میں گِدھ نسل کو معدوم ہونے کے شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ یہ خطرہ نیپال کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند میں بھی دیکھا گیا۔ گزشتہ بیس برسوں میں گِدھ کی برصغیر میں پائی جانے والی نو میں سے چار اقسام اس وقت معدومیت کا شکار خیال کی جاتی ہیں۔ حیوانات کے ماہرین کا خیال ہے کہ مال مویشیوں کو لاحق ہونے والی ایک بیماری میں دی جانے والی دوا ڈیکلوفینک گِدھ مخلوق کے معدوم کی وجہ کی بڑی وجوہات میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ دوا ہلاک ہو جانے والے مال مویشیوں میں پائی جاتی ہے اور ان کی نعشیں کھانے والے گدھ بھی زہریلی دوا کا شکار ہو کر مرتے جا رہے ہیں۔

نیپال میں گدھ بچاؤ مہم جاری

سن 2006 میں نیپالی حکومت نے گِدھ کے تحفظ کے اقدامات اٹھائے اور ان میں ایک ڈیکلوفینک دوا پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تحفظِ ماحول کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس نسل کو ناپید ہونے سے بچانے کے لیے ابھی بہت سارے اقدامات اٹھانا باقی ہیں۔


گِدھ نسل کے لیے پہلا ریسٹورانٹ

ایک کاروباری شخصیت دھان بہادر چوہدری نے اپنے ملک نیپال کے ایک چھوٹے سے گاؤں پیتھاؤلی میں گِدھوں کے لیے ایک ریسٹورانٹ سن 2010 قائم کیا۔ پیتھاؤلی کا گاؤں چٹوان نیشنل پارک کے باہر واقع ہے۔ اس ریسٹورانٹ کے قیام میں دھان بہادر چوہدری کو ایک غیر حکومتی تنظیم 'برڈ کنزرویشن نیپال‘ کا تعاون بھی حاصل ہے۔

ریسٹورانٹ قائم کرنے والے دھان بہادر چوہدری کہتے ہیں کہ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں گدھ کیمیائی مادوں سے صاف خوراک کھا سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی افواہیں بھی عام ہیں کہ مختلف ریسٹورانٹ میں گائے کو کاٹ کر بھی ڈالا جا رہا ہے لیکن ان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ نیپال کا قومی جانور گائے ہے۔ اس ملک میں مال مویشی کو ہلاک کرنا ممنوع ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گائے ہندو مت میں مقدس تصور کی جاتی ہے۔


عمر رسیدہ مال مویشی کی کھپت کا پائیدار طریقہ

گِدھوں کے لیے وقف ریسٹورانٹوں میں ایسے مال مویشی کاٹ کر ڈالے جاتے ہیں جن کی عمریں بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ کسی مقام پر گر کر مر جانے والے ایسے جانوروں کو بھی انہی گِدھوں کی خوراک بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ریسٹورانٹ بھی بڑی عمر کے جانور خرید کر گِدھوں کی خوراک بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پوکھارا میں ریسٹورانٹ سن 2004 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ پیتھاؤلی گاؤں کے ریسٹورانٹ کے چار سال بعد قائم کیا گیا۔ بڑی عمر کی گائے کی طبعی موت کے بعد اس کی جلد اتار لی جاتی ہے اور بقیہ نعش گِدھ نسل کے مخصوص ریسٹورانٹ کے علاقے میں رکھ دی جاتی ہے۔ نعش رکھنے کے کچھ ہی دیر بعد درختوں پر ڈھیرے ڈالے بے شمار گِدھ اتر آتے ہیں اور صرف آدھ گھنٹے میں قریب قریب ساری نعش چٹ کر جاتے ہیں۔ ان ریسٹورانٹس میں گِدھوں سے بچ جانے والی ہڈیوں کو اٹھا کر مرغبانی کے فارم کے لیے بنائی جانے والی خوراک کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔


دھان بہادر چوہدری کے مطابق دنیا کے مختلف ملکوں میں گِدھ نسل کے لیے ریسٹورانٹ قائم کیے گئے ہیں اور ان کا انتظام مقامی رضاکاروں کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ نیپال میں بھی یہ ریسٹورانٹ رضاکار چلاتے ہیں۔ اس باعث انسانوں میں خوف پیدا کرنے والا یہ بڑی جسامت والا پرندہ اب ریسٹورانٹس کی قریبی بستیوں کے باسیوں کا دوست بن چکا ہے۔

ایسی کوششوں سے بڑے پرندوں کی یہ نسل معدوم ہونے سے ضرور بچائی گئی ہے لیکن کئی ملکوں میں مال مویشیوں کو دی جانے والی زہریلی ادویات اب بھی ان کے لیے خطرہ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔