چین دنیا بھر میں دیے اپنے قرضوں کی واپسی یقینی کیسے بنائے گا؟

چین نے تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایشیا سے لاطینی امریکہ تک بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے 1.3 ٹریلین ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔ تاہم چین ان قرضوں کی ادائیگی کو کیسے یقینی بنائے گا۔

چین دنیا بھر میں دیے اپنے قرضوں کی واپسی یقینی کیسے بنائے گا؟
چین دنیا بھر میں دیے اپنے قرضوں کی واپسی یقینی کیسے بنائے گا؟
user

Dw

چین نے بڑے پیمانے پر پھیلے اپنے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے دنیا بھر میں تقریباً 21 ہزار تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کیا- اس میگا پراجیکٹ کو چینی صدر شی جن پنگ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی خیال مانا جاتا ہے۔ ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق بیجنگ نے کم آمدنی والے ممالک میں پلوں، بندرگاہوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے لیے پچھلی دہائی کے دوران 1.3 ٹریلین سے زائد کا قرضہ دیا ہے۔

چینی ترقیاتی منصوبے بی آر آئی نے چین اور باقی دنیا کے درمیان قدیم تجارتی راستوں کو بحال کرنے میں مدد کی ہے۔ اس لیے اسے نیو سلک روڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے نے بیجنگ کے عالمی اثر و رسوخ کو مزید بڑھایا تاہم تیزی سے ترقی کرتا یہ منصوبہ واشنگٹن اور برسلز کی پریشانی کا باعث بھی بن رہا ہے۔


ناقدین کا ماننا ہے کہ بی آر آئی نے ترقی پذیر ممالک کو ناقابل واپسی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہےاور ساتھ ہی ایسے وقت میں جب ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ اولین ترجیح ہونی چاہیے اس منصوبے کے کاربن فٹ پرنٹس ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ فلپائن سمیت کچھ ممالک نے بی اینڈ آر کے منصوبوں سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ چین نے نئے منصوبوں میں اربوں کی سرمایہ کاری جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ چین کی جانب سے کئی ممالک کو دیے گئے قرضوں پر پچھلے 10 سالوں کا بل اب واجب الادا ہے۔

ترقی پذیر ممالک بی آر آئی کے قرض ادا کرنے سے قاصر

ایڈ ڈیٹا کی طرف سے اس ماہ کے شروع میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو چین کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں کا 80 فیصد ایسے ممالک کو دیا جاتا ہے جو شدید مالیاتی بحران کا شکار ہوں۔ امریکہ میں مقیم ریسرچ ہاؤس نے اندازہ لگایا ہے کہ اس ضمن میں سود کے علاوہ بینادی قرض کی رقم ہی کم از کم 1.1 ٹریلین ڈالر ہے۔


اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کون سے ممالک شرائط کے مطابق قرض کے اقساط ادا کرنے سے قاصر ہیں تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ان قرضوں پر سود کی رقم بہت بڑھ چکی ہے۔رپورٹ کے مصنفین کے مطابق بعض صورتوں میں تاخیر سے ادائیگی پر جرمانے کے طور پر شرح سود کو 3 فیصد سے 8.7 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔

چین کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کیا حکمت عملی اپنا رہے ہیں؟

اس رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جہاں ایک طرف چین کم آمدنی والے ممالک کو 80 بلین ڈالر کے قرضے فراہم کر رہا ہے وہیں واشنگٹن ہر سال تقریباً 60 بلین ڈالر اسی طرح کے ترقیاتی فنانس میں خرچ کرتا ہے، جس کا مقصد یو ایس انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن کی مدد سے نجی شعبے کے منصوبوں کی مالی معاونت ہے۔


اس کی سب سے بہترین مثال امریکا کی جانب سے سری لنکا کے کولمبو پورٹ پر گہرے پانی کے جہاز رانی کے کنٹینر ٹرمینل بنانے کا منصوبہ ہےجس کا اعلان رواں ماہ ہی کیا گیا ہے۔ اس پر نصف بلین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ پچھلے مہینے، یورپی یونین نے اپنے گلوبل گیٹ وے پروگرام کے لیے اپنا پہلا سربراہی اجلاس منعقد کیا، جسے بی آر آئی کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اس سے یورپ کے اثر کو، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں، برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

بات چیت کے دوران، یورپ، ایشیا اور افریقہ کی حکومتوں کے ساتھ تقریباً 70 بلین یورو کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ یورپی یونین کی حمایت، جو بالآخر تیس سو بلین یورو تک پہنچ سکتی ہے، اہم معدنیات، گرین اینرجی، اور ٹرانسپورٹ کوریڈورز سے متعلق منصوبوں میں مدد کرے گی۔


اس رپورٹ میں ایڈ ڈیٹا نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو چین کے بی آر آئی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کے خلاف خبردار بھی کیا ہے کیونکہ بیجنگ بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں سے قرض کی وصولی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تاہم، رپورٹ کے مصنفین نے کہا کہ بی آر آئی کے بہت سے منصوبوں کی ناکامی سری لنکا جیسے متاثرہ ممالک کو مغرب کے مدار میں واپس لانے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔