جب روبوٹ ہاتھ سے نکل جائے؟

اس بار جو روبوٹ سیاسی بازار میں اتارا گیا، اس میں ’اے آئی‘ کا جدید فیچر بھی متعارف کروایا گیا. تاکہ وہ روزمرہ معمول کے فیصلے خود کر سکے۔ مگر یہ روبوٹ رفتہ رفتہ بڑے بڑے غیر معمولی فیصلے بھی کروانے لگا۔

جب روبوٹ ہاتھ سے نکل جائے؟
جب روبوٹ ہاتھ سے نکل جائے؟
user

Dw

جس طرح سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے پشاور آرمی پبلک اسکول سانحے میں ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کی موت نے سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے سقوطِ ڈھاکہ کی تکلیف دہ یاد سے جان چھڑا دی۔ اسی طرح نو مئی کو جی ایچ کیو پنڈی اور کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ سمیت متعدد سرکاری و عسکری عمارات و یادگاروں پر حملوں کے ملبے تلے بارہ مئی دب کے رھ گیا۔

موجودہ نو مئی سے سولہ برس قبل کے بارہ مئی کو کراچی کی سڑکوں پر جنرل پرویز مشرف کی اتحادی ایم کیو ایم کے ہاتھوں وکلا تحریک سے جڑے چھپن سیاسی کارکنوں کے قتلِ عام کی سالانہ یاد موجودہ نو مئی نے پوری طرح نگل لی۔


جب بارہ مئی دو ہزار سات کو کراچی کی سڑکوں پر مخالف سیاسی کارکنوں کا شکار ہو رہا تھا اسی شام جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں ایک جلسے کے سامنے دونوں مٹھیاں جوڑ کے گھونسہ ہوا میں لہراتے ہوئے کہہ رہے تھے ”دیکھ لی کراچی میں عوامی طاقت۔ ایسی ہوتی ہے عوامی طاقت‘‘۔ اسی لیے نہ تو اس سانحے کی چھان پھٹک کے لیے کوئی کمیشن بنا، نہ مقدمہ کسی انجام تک پہنچا اور کسی کو سزا ملنے کا تو خیر سوال ہی نہیں تھا۔

پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب ایم کیو ایم نے اپنا حوصلہ بڑھانے والوں کے نزدیک اپنی افادیت بالاخر مکمل طور پر کھو دی تو پھر اسے صرف ایک پاکستان مخالف نعرہ لگانے کی سزا دیتے ہوئے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کے پھینک دیا گیا۔ تب تک نوجوانوں کی امنگوں کو پھر سے ابھارنے والی ایک اور تنظیم بدلے وقت کے نئے تقاضوں کے تحت گملے سے زرخیز زمین میں منتقل ہونے کے بعد تیزی سے پھلنے پھولنے لگی تھی۔ اسے موسمیاتی گرم و سرد سے بچاتے ہوئے گرین ہاؤس کے کنٹرولڈ ٹمپریچر میں رکھا گیا۔


کب پانی دینا ہے، کب کھاد ڈالنی ہے، کب گوڈی کرنی ہے، کب کیڑوں اور سنڈیوں سے بچانے کے لیے ادویاتی اسپرے کرنا ہے اور کب فصل اتار کے اسے ٹھنڈے گودام میں رکھ کے منڈی کی ڈیمانڈ کے اعتبار سے نکالنا، بیچنا اور کمانا ہے۔

تراشیدم، پرستیدم، شکستم کی یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ پہلی بار انیس سو پچپن میں مسلم لیگ کو ایک ہی رات میں ریپبلیکن پارٹی میں بدلنے کا تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے کی وقتی کامیابی سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ طاقت چاہے تو سیاست کو نہ صرف اپنے تابع رکھ سکتی ہے بلکہ اس میں سے اپنے کام کے پودے اور جڑی بوٹیاں الگ کر کے حسبِ ضرورت کوئی بھی دوا، معجون یا پکوان تیار کر سکتی ہے۔


جب ریپبلیکن پارٹی کی افادیت ایک آدھ سال میں ختم ہو گئی تو مسلم لیگ کو پھر کارخانے میں بھیج کے اس میں سے کام کے بندے الگ کر کے ان کی کنونشن لیگ بنا لی گئی۔ اس دھڑے کو پہلے فوجی ڈکٹیٹر نے بطور پوشاک استعمال کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ جب بادشاہ ختم شد ہوا تو پوشاک کو بھی سیاسی لنڈہ بازار میں جس نے زیادہ بولی دی اس کے حوالے کر دیا گیا۔

دوسرے ڈکٹیٹر نے کنونشن لیگ کو اپنانے کے بجائے اس کے سکریٹری جنرل کی قیادت میں بننے والی ایک نئی جماعت پیپلز پارٹی کو سب سے مقبول پارٹی عوامی لیگ کا راستہ روکنے کے لیے بطور ہم خیال استعمال کیا۔ مگر سخت جان عوامی لیگ رکا ہوا راستہ دوسرے ڈکٹیٹر سمیت بہا لے گئی اور پیپلز پارٹی کو پہلی بار اقتدار ملتے ہی وقتی طور پر لگا گویا مالکانہ عسکریت کے مسلط سائے سے چھٹکارا مل گیا۔


اس نے آتے ہی فوج کی بالائی قیادت میں جو اکھاڑ پچھاڑ کی اسے فوج نے اپنی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے یہ لاشعوری فیصلہ کر لیا کہ آئندہ کسی بھی ایسے شخص کو کھلی چھوٹ دینا خطرناک ہو سکتا ہے جو خود کو اعزازی کے بجائے اصلی حکمران سمجھنے لگے ۔ یہ فیصلہ سب کو ذہن نشین کرانے کے لیے پہلے اور آخری اصلی وزیرِ اعظم کو دفنا دیا گیا۔ دوسرے (جونیجو) کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال پھینکا گیا، تیسرے (بے نظیر) کی مشکیں کس کے اقتدار کی پلیٹ دانتوں میں اٹکا دی گئی اور پھر وہ پلیٹ کھینچ کے لیبارٹری میں تیار کردہ وزیرِ اعظم (نواز شریف) کو تھما دی گئی۔

یہ شروع شروع کا زمانہ تھا۔ تب تک روبوٹکس پر اتنا ہاتھ صاف نہیں ہوا تھا چنانچہ اس میں جانے کس بے احتیاطی کے سبب خود سری کا وائرس آ گیا۔ لہذا اسے وقتی طور پر اسکریپ کر کے پرانے آئیڈیل ازم سے دستبردار نئی نئی عملیت پسند پیپلز پارٹی کو اقتدار کے فلمی سیٹ پر رکھی سنہری کرسی پر تیسری بار بٹھا دیا گیا۔ پچھلا روبوٹ بظاہر ری بوٹ ہو گیا تو پھر سے واپس لایا گیا۔ مگر اس بار وہ دو تہائی اکثریت کے زعم میں اور بھی بےلگام ہو گیا۔


اس تکنیکی خامی کا بندوبست اس بار یوں کیا گیا کہ اسی کی پارٹی کے ڈی این اے کی کلوننگ کر کے قاف بنائی گئی اور اس میں وفاداری بشرطِ استواری کا نیا سافٹ ویئر فٹ کیا گیا۔ مگر یہ بھی ایک مقررہ مدت سے زیادہ نہ چل پایا۔ چنانچہ پرانے نظریاتی کھنڈرات پر کھڑی حقیقت پسند پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر خدمت کا موقع دیا گیا اور اس بار اس نئے اوتار والی پارٹی نے بادشاہ گروں کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔

اس کے بعد نون اتنی ٹھوکریں کھا کے تیسرا موقع نصیب ہونے کے باوجود پرانی عادتوں سے باز نہ آئی۔ اس نے پھر من مانی کی کوشش کی۔ چنانچہ اس بار اس خودسری کا بندوبست تحریکِ انصاف کو مارکیٹ میں اتار کے کیا گیا۔ پی ٹی آئی دراصل بننے سے پہلے ہی متعلقہ حکام کو پسند آ گئی تھی۔ اسے بھی اتنے ہی ناز و نعم کے اتالیقی ماحول میں پالا گیا، جو ضیا دور میں اصلی پیپلز پارٹی کو قابو میں رکھنے کے لیے مسلم لیگ کی پرداخت و نگہداشت کے لیے تیار کیا گیا تھا۔


دعوی یہ کیا گیا کہ اس بار جو سٹیٹ آف دی آرٹ روبوٹ سیاسی بازار میں اتارا گیا ہے اس میں اے آئی (مصنوعی ذہانت) کا جدید فیچر بھی متعارف کروایا گیا ہے تاکہ وہ کم از کم روزمرہ معمول کے فیصلے خود کر سکے۔ مگر مسئلہ یہ ہوا کہ اے آئی کا فیچر رفتہ رفتہ بڑے بڑے غیر معمولی فیصلے بھی کروانے لگا۔ یوں روبوٹکس مینیجمنٹ اتھارٹی کے لیے نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا، جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ چنانچہ ایسی صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے ہنگامی پلان بی بھی تیار نہیں ہو سکا۔

اب یہ غیر معمولی روبوٹ آگے آگے ہے اور سارا انتظام پیچھے پیچھے۔ اگر یہ گرفت میں آ گیا تو شاید اسکریپ گودام میں پہنچا دیا جائے یا پھر یہ ایسی توڑ پھوڑ کرے گا کہ روبوٹکس کا پورا شعبہ ہی واپس ڈرائنگ بورڈ پر چلا جائے گا۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */