سیکولرازم کیا ہے اور اس کا ارتقا کیسے ہوا؟

سیکولرازم کا لفظ آپ سب نے سنا ہے۔ اس لفظ کے حوالے سے مختلف معاشروں میں مختلف طرز کی تعریفیں اور غلط فہمیاں بھی ہیں۔ آئیے اسے تاریخی طور پر سمجھتے ہیں۔

سیکولرازم کیا ہے اور اس کا ارتقا کیسے ہوا؟
سیکولرازم کیا ہے اور اس کا ارتقا کیسے ہوا؟
user

Dw

سیکولرازم کی بنیاد یہ ہے کہ انسانی معاملات کو غیرجانبدار انداز سے دیکھا جائے یعنی کسی بھی امر سے متعلق فیصلہ کسی بھی مذہبی تناظر میں نہ ہو۔ سیکولرازم کی عمومی تعریف یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کے شہری امور علیحدہ رہیں یعنی ریاست کے فیصلے کی بنیاد مذہب کی بنیاد پر نہ ہو۔ اسی اعتبار سے سیکولر معاشرے میں کسی بھی سرکاری یا عوامی مقام پر کوئی ایسا نشان نہیں رکھا جاتا، جو کسی مذہب کی نشان دہی کرے۔

سیکولرازم کا فلسفہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے لیے اصول مذہب کی بجائے تجربات، مشاہدات اور موجود چیزوں کے اعتبار سے قائم کیے جائیں۔ یعنی مذہب کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہو اور معاشرے کا فرد کے اس ذاتی معاملے سے لینا دینا نہ ہو جب کہ فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کی بنیاد کوئی عمرانی معاہدہ ہو جو مذہب کی بجائے دنیا سے ماخوذ ہو۔


اصطلاح کا ماخذ

سیکولرازم کی اصطلاح سب سے پہلے برطانوی مصنف جارج ہولیوک نے 1851 میں استعمال کی۔ انہوں نے اس اصطلاح کی تخلیق کے ذریعے سماجی نظم کو مذہبی اخلاقیات سے الگ کرنے کے خیالات کی ترجمانی کی۔ ہولیوک اپنی تصنیف 'دا ریزنر‘ میں لکھتے ہیں، ''سیکولرازم مسیحیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اس سے علیحدہ اور آزاد ہے اور مسیحیت کے دعووں پر سوال نہیں اٹھاتا۔ سیکولرازم یہ نہیں کہتا کہ ہدایت کہیں اور سے نہیں مل سکتی مگر یہ یقین ضرور رکھتا ہے کہ ہدایت اور روشنی کے لیے، غیرجانبداری ضروری ہے، کیوں کہ یہی اصول بہتر اور دائمی ہے۔‘‘


سیکولرازم کی اقسام

سیکولرازم کو دو اہم خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، 'سخت گیر‘ اور نرم گیر‘۔ سخت گیر سکیولرازم مذہبی نشانات کو غیرقانونی قرار دیتا ہے اور تمام ممکنہ انداز سے ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ جب کہ 'نرم گیر‘ سکیولرازم اس بابت برداشت اور لبرل ازم پر زور دیتا ہے۔


سیکولرازم کی تاریخ

سیکولرازم گو کہ قدرے جدید اصطلاح ہے اور یہ لفظ ماضی بعید میں کبھی نہیں برتا گیا، تاہم تاریخی طور پر سیکولرازم کا خیالیہ کئی فلسفیوں اور تہذیبوں میں ملتا ہے۔


ماہرسماجیات فِل سوکرمن اپنی تصنیف 'سیکولرازم کا تعارف‘ میں لکھتے ہیں کہ سیکولرازم کا خیال قدیمی بھارتی 'چارواکا نظام‘ میں ملتا ہے۔اسی طرح یونانی فلسفی زینو آف سیٹیوم سمیت متعدد دیگر فلسفیوں کے ہاں بھی یہ اصول نظر آتا ہے۔

مغربی دنیا میں یونانی فلسفیوں کے ذریعے سیکولرازم کا خیالیہ پیدا تو ہوا، مگر غائب ہو گیا۔ تاہم یہ اصول پہلے رینیسانس یعنی 'نشاط ثانیہ‘ میں ظاہر ہوا اور پھر یورپ میں ریفارمیشن یا اصلاحات کے عہد میں اس اصول کو تقویت ملی۔


مذہبی تقسیم کے معاشرے میں راحت

قرونِ وسطیٰ کا یورپی معاشرہ مذہبی بنیادوں پر استوار تھا اور اسی تناظر میں پروٹیسٹنٹ تحریک کے آغاز پر یہاں مذہبی تقسیم اپنی انتہاؤں کو جا پہنچی۔ اس تناظر میں سیکولرازم کے خیالیے نے اس مذہبی تقسیم سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔


ماہرینِ سماجیات کا کہنا ہے کہ ریاست مذہب کی بجائے تمام شہریوں کو قابلِ قبول کسی عمرانی معاہدے کے ذریعے اپنے امور انجام دے، تو اس سے معاشرے کے تمام طبقات، برادریوں اور افراد کا ریاست سے تعلق ایک جیسا بنتا ہے۔ اور یہی ریاستی رویہ معاشرے میں تقسیم کے عمل کو روکنے میں معاونت کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔