شراب تیار کرنے والے ادارے نے بھارت میں نئی سرمایہ کاری روک دی

دنیا کے دوسرے بڑے شراب تیار کرنے والے فرانسیسی ادارے نے ٹیکس امور کے تناظر میں بھارت میں سرمایہ کاری فی الحال روک دی ہے۔

شراب تیار کرنے والے ادارے نے بھارت میں نئی سرمایہ کاری روک دی
شراب تیار کرنے والے ادارے نے بھارت میں نئی سرمایہ کاری روک دی
user

Dw

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس معاملے سے بہ راہ راست جڑے دو ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شراب تیار کرنے والے فرانسیسی ادارے پیرنوں نے بھارتی حکام کے ساتھ شراب کی درآمد کے معاملے پر جاری ٹیکس تنازعے کے تناظر میں بھارت میں نئی سرمایہ کاری روک دی ہے۔

شراب کی تیاری کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے نے کہا ہے کہ قانونی مسائل نے اسے تیزی سے متاثر کیا ہے اور اس کے لیے اب فرانس میں کاروبار جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔


شیواز ریگل اور گلین لیوِٹ وسکی اور ایبسولوٹ وڈکا بنانے والا یہ ادارہ بھارتی حکام بہ شمول وزیراعظم نریندر مودی کے دفتر سے بات چیت میں مصروف ہے تاکہ کسی طرح اس تنازعے کا کوئی حل نکل سکے۔

پیرنوں کی مودی کے دفتر کو گزشتہ برس نومبر میں بھیجے گئے ایک مراسلے میں لکھا تھا، ''طویل عرصے سے جاری یہ پیچیدہ صورتحال ہم پر کاروباری لحاظ سے ایک بڑا بوجھ ہے۔ اسی لیے ہمارے پیرس میں واقع ہیڈکواٹرز سے بھارت میں کاروبار میں وسعت کے حوالے سے نئی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔‘‘


اس مراسلے میں مزید لکھا گیا تھا، ''یہ تنازعے کسٹم حکام کی طرف سے انیس سو چورانوے میں درآمدی قدر کے تخمینے کے تنازعے میں شروع ہوئے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کمی نہیں ہوئی۔‘‘

اس ادارے کو امید ہے کہ بھارت اور چین الکوحل کی صنعت کی مستقبل کی نمو میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔


بھارت میں الکوحل سے جڑی صنعت کا حجم بیس ارب ڈالر ہے جس میں گزشتہ برس سالانہ بنیادوں پر سات فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، اس میں وہسکی اور دیگر اسپیرٹس انتہائی پسندیدہ الکوحل مشروبات میں شامل ہیں۔ فرانسیسی کمپنی پیرنوں بھارتی منڈی کے سترہ فیصد کی حامل ہے جب کہ ڈیاگیو کے پاس انتیس فیصد حجم ہے۔

اس کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کا بھارتی حکام کے ساتھ تنازعہ کمپنی کی جانب سے درآمد کردہ بوتلوں اور دیگر خام مال کی قدر متعین کرنے کے معاملے پر ہے۔ روئٹرز کے مطابق بھارتی حکام پیرنوں پر درآمدی قیمت سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، جو ڈیڑھ سو فیصد وفاقی درآمدی ٹیکس لا سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔