’دنیا بھر ميں پریس کی آزادی کو کچلا جا رہا ہے‘

دنیا بھر حکومتیں آزادی صحافت پر پابندی عائد کرنے کے ليے زیادہ سے زیادہ کوششيں کر رہی ہیں۔ پريس کی آزادی کو کھلم کھلا سلب کيا جارہا ہے۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز نے تشويش کا اظہار کيا ہے۔

’دنیا بھر ميں پریس کی آزادی کو کچلا جا رہا ہے‘
’دنیا بھر ميں پریس کی آزادی کو کچلا جا رہا ہے‘
user

ڈی. ڈبلیو

پریس کی آزادی کی مختلف ممالک ميں پائی جانے والی صورتحال کی نئی رینکنگ میں منفی رجحانات کے حامل رہنما ہی پرانی فہرست ميں شامل ہيں۔ پریس کی آزادی کے حوالے سے موجودہ درجہ بندی کے ليے رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز (آر او جی) نے دنیا کے 180 ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس جائزے کے سوالنامے ميں میڈیا کے شعبے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کے خلاف حملوں کے اعداد و شمار شامل ہيں۔

پریس کی آزادی کا رول ماڈل


پریس کی آزادی کی درجہ بندی کی فہرست ميں سب سے اوپر اور ایک مطلق رول ماڈل، مسلسل چوتھی بار اسکینڈے نيويا کی رياست ناروے ہے۔ اس کے بعد فن لینڈ اور ڈنمارک کا نمبر آتا ہے۔ سب سے نچلے مقام پر شمالی کوریا ہے جس کی پوزیشن 180 ویں ہے۔ پچھلے سال کی درجہ بندی کی فہرست ميں پریس کی آزادی سے متعلق بدترین ملک قرار ديے جانے والے ترکمانستان کے ساتھ پوزيشن تبديل ہو گئی ہے اور یہ ایک سو اناسویں ہے۔ گزشتہ برس اریٹیریا 178 ویں اور چین 177 ویں نمبر پر تھا-

کورونا ايک دہکتا شيشہ


صحافیوں کی تنظیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے" آمرانہ، مطلق العنان اور عواميت پسند‘‘ حکومتیں ہر قیمت پر آزاد معلومات کو دبانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہی ہیں۔ بیشتر میڈیا کارکن اپنے کام کی وجہ سے جیلوں میں ہیں۔ چین ، سعودی عرب اور مصر کو ، "اس رجحان کی سب سے اہم مثال" قرار دیا جا رہا ہے۔

آر او جی نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ، خاص طور پر چین "ایک نیا عالمی میڈیا آرڈر" نافذ کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ کورونا بحران کے دوران چینی نیوز کے مکمل کنٹرول کے اثرات کو پوری دنیا ميں محسوس کیا گيا۔


لیکن پچھلے کچھ مہینوں میں دوسرے ممالک میں بھی یہ بات واضح طور پر ديکھی گئی کہ وہاں پریس کی آزادی کتنی بری طرح سے کچلی جا رہی ہے۔ آر او جی بورڈ کی ترجمان کاتيا گلوگر کا کہنا ہے کہ ، "کورونا وبائی مرض ایک جلتے ہوئے شیشے کی طرح دنیا بھر میں موجودہ جابرانہ رجحانات کا عکاس ہے۔" بہر حال ، موجودہ درجہ بندی پر سروے کورونا وبائی مرض پھیلنے سے پہلے کئے گئے تھے ، تا کہ نتائج پر یہ امر اثر انداز نہ ہو۔

جرمنی دو پوائنٹس آگے


جرمنی کی پوزيشن اس ٹیبل میں دو پوائنس کی بہتری کے ساتھ 11 ویں نمبر پر آ گئی ہے۔ گزشتہ درجہ بندی میں یہ 13 ویں مقام پر تھا۔ آر او جی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق وفاقی جمہوریہ میں صحافیوں پر حملوں کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سن 2019 میں دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کی طرف سے اس نوعيت کا کوئی مظاہرہ نہيں ديکھنے ميں آيا جيسا کہ سن 2018 کے موسم گرما کے آخر میں کيمنٹس اور کؤٹن ميں ہوا تھا۔

سال 2019 میں ، اس تنظیم نے جرمنی میں میڈیا پیشہ ور افراد پر کم سے کم 13 حملوں کی گنتی کی تھی جبکہ اس سے پہلے سال جرمنی میں میڈیا پیشہ ور افراد پر کم از کم 22 حملے ريکارڈ ہوۓ تھے۔


فيک نیوز کا مقابلہ : ایک عذر کے طور پر

صحافيوں کی تنظيم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز نے آزادی صحافت پر پابندی سے متعلق تازہ ترین درجہ بندی میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بہت سارے ممالک میڈیا کی آزادی پر اس بہانے سے پابندی عائد کرتے ہیں کہ وہ اس طرح سے "جعلی خبروں کے پھيلاؤ" سے لڑ رہے ہیں۔ تنظیم نے اس ضمن ميں سنگاپور اور بنین کی مثاليں پیش کی ہيں۔


دوسری طرف روس، بھارت، فلپائن اور ویت نام جیسے ممالک میں، حکومت کی خدمت میں شامل ٹرول فوج خود "ڈس انفارميشن پرانحصار کرتے ہوۓ رائے عامہ اور میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔

ادھر امريکا اور برازیل میں جمہوری طور پر منتخب صدور دشمنی اور منافرت کو ہوا ديتے ہيں۔ نیوز میڈیا پر پاپولسٹوں يا عواميت پسندوں کے عدم اعتماد کے نتیجے میں سن 2019 میں بہت ساری جگہوں پر نامہ نگاروں کے خلاف تشدد ہوا۔ یہاں تک کہ اسپین ، اٹلی اور یونان جیسے ممالک میں بھی قوم پرست اور دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ براہ راست خطرات سے بھی اپنی سرگرميوں سے باز نہیں آتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔