جعلی جنسی مواد سے اصلی مجرموں تک پہنچنے کا منصوبہ

کمپیوٹر کے ذریعے چائلڈ پورنوگرافی کی جعلی تصاویر کے ذریعے ڈارک نیٹ کے صارفین تک پہنچنے کا منصوبہ۔ اس جرمن حکومتی منصوبے کی مختلف سطح مخالفت کے ساتھ پذیرائی بھی کی جا رہی ہے۔

جعلی جنسی مواد سے اصلی مجرموں تک پہنچنے کا منصوبہ
جعلی جنسی مواد سے اصلی مجرموں تک پہنچنے کا منصوبہ
user

ڈی. ڈبلیو

ڈارک نیٹ کے صارفین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بچوں کی جعلی جنسی تصاویر کا استعمال ایک اخلاقی تنازعہ بھی بن گیا ہے۔ تاہم اس طرح سرکاری تفتیش کاروں کو زیادہ بااختیار بنانے کے اس منصوبے کی حمایت اتنی زیادہ ہے کہ یہ قانون بھی بن سکتا ہے۔

جرمنی میں انٹرنیٹ پر موجود بچوں کا جنسی مواد حکام کے لیے اب بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اب حکام نے کمپیوٹر کے ذریعے چائلڈ پورنوگرامی کی جعلی تصاویر بنا کر اس کاروبار میں ملوث افراد تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا ہے۔


جرمن وزیر انصاف کرسٹین لامبریشٹ کے مطابق حکومت تفتیش کاروں کو یہ اختیار دینا چاہتی ہے کہ وہ چائلڈ پورنو گرافی کی جعلی تصاویر کے ذریعے ڈارک نیٹ استعمال کرنے والے ان افراد تک پہنچیں، جو نابالغ بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھتے اور انہیں فراہم کرتے ہیں،'' اگر جرم تک کسی اور طریقے سے پہنچنا ممکن نہیں ہو پا رہا تو تفتیش کار مستقبل میں کمپیوٹر کے ذریعے جعلی تصاویر بنا کر مجرم تک پہنچنے کی کوشش کر سکیں گے۔‘‘

ڈراک نیٹ پر موجود کئی ویب سائٹس تک رسائی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے، جب صارف خود بھی اسی طرح کا جنسی مواد اپ لوڈ کرے۔ اس وجہ سے خفیہ تفتیش کاروں کی اس طرح کی جرائم پیشہ ویب سائٹ تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ لامبریشٹ نے مزید کہا کہ ارکان پارلیمان اس طرح تفتیش کاروں کو ان جرائم میں ملوث افراد کی فوری نشاندہی کرنے اور ان تک پہنچنے کی خاطر تمام تر قانونی وسائل مہیا کرنا چاہتے ہیں۔


متنازعہ طریقہ

تمام تر نیک نیتی کے باوجود اس طریقہ کار پر تنقید کی جا رہی ہے۔ فری ڈیموکریٹک پارٹی ( اے ایف ڈی) کے پارلیمانی دھڑے کے سربرہ اسٹیفن تھومے کے مطابق، ''ہدف انٹرنیٹ سے چائلڈ پورنوگرافی مواد کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے نا کہ کمپیوٹر سے بنائی جانے والی جعلی تصاویر کے ذریعے اس میں اضافہ۔‘‘


اسی طرح گرین پارٹی نے بھی اس حکومتی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ گرین پارٹی کی قانونی امور کی ماہر کینان بیرم کے مطابق، '' اگرچہ تفتیش کاروں کے اختیارات میں اضافہ ضروری ہے، لیکن جرم کو ختم کرنے کے لیے کسی دوسرے جرم کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح کی جعلی تصاویر کے ذریعے ان غیر قانونی ویب سائٹس میں داخل ہونے کے لیے ضروری شرائط میں اضافہ ہو جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔