میانمار کا معاملہ، یورپی یونین پر دباؤ بڑھ گیا

میانمار کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو سنائی گئی سزائے قید کے بعد کیا یورپی یونین اپنی میانمار سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کرے گی؟ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے میانمار پر اضافی پابندیاں لگا دی ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

یورپی ناقدین کا اصرار ہے کہ میانمار کی فوجی جنتا کی طرف سے سوچی کو سزا سنانے کے بعد اس پر اضافی پابندیاں لگائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی یورپی یونین نے کوئی قدم نہ اٹھایا تو فوجی جنتا کو غلط پیغام جائے گا۔

میانمار کی فوج کو غلط اشارہ نہ دیا جائے

ناقدین کا کہنا ہے کہ حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ اب یورپی یونین کو بھی میانمار کی فوجی جنتا پر اضافی پابندیاں عائد کر دینا چاہییں۔ برما مہم یو ۔ کے نامی ایک ایکشن گروپ کے ڈائریکٹر مارک فارمانر کے مطابق صرف سوچی کو سنائی جانی والی سزا ہی ایک ایسی پیش رفت ہے کہ یورپی یونین کو میانمار کے چنیدہ فوجی اہلکاروں پر پابندیاں لگا دینا چاہییں۔


مارک فارمانر نے مزید کہا کہ چھ ماہ ہو چکے ہیں کہ یورپی یونین نے میانمار پر کوئی ایک بھی نئی پابندی عائد نہیں کی اور یہ تاثر دراصل فوجی جنتا کی حوصلہ افزائی کا باعث ہی بنے گا کہ یورپی یونین اس کے خلاف مزید ایکشن نہیں لے گی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مارک فارمانر نے مزید کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اب یورپ بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرے تاکہ میانمار میں فوج کو کھلی چھوٹ ہی نہ مل جائے۔ براٹسلاوا کی ماہر تعلیم اور میانمار کے معاملات پر کڑی نگاہ رکھنے والی کرسٹینا کیرونسکا کے بقول یورپی یونین کے پاس جتنی طاقت ہے وہ اسے استعمال کرتے ہوئے میانمار کی فوجی جنتا کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کر رہی۔


کرسٹینا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی یونین کو اس کڑے وقت میں میانمار کے عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ میانمار کی فوج پر اضافی پابندیاں عائد نہ کر کے یورپی یونین اپنی ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح فوجی جنتا کو غلط اشارے مل سکتے ہیں کہ اس کی طرف سے اپنے ہی عوام پر کیے جانے والے جبر پر یورپی یونین خاموش رہے گی۔

کٹھ پتلی حکومت پر تنقید

میانمار کی فوجی جنتا کی کٹھ پتلی حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے ملک کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو چار برس کی سزا سنائے جانے کے بعد مغربی ممالک کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کو سیاسی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے رد کر دیا گیا جبکہ مطالبہ کیا گیا کہ سوچی اور دیگر تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔


میانمار کی فوج کی طرف سے فروری کے اوائل میں سوچی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سوچی سمیت ان کے تمام سیاسی ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ابھی حال ہی سوچی اور معزول صدر کو چار چار برس کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ سوچی پر دیگر الزامات بھی عائد ہیں اور اگر وہ عدالت میں ثابت ہو گئے تو انہیں عمر قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

عالمی دباؤ لیکن یورپی یونین کہاں ہے؟

میانمار کی فوجی حکومت پر عالمی دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں لیکن جب سوچی کو سزا سنائی گئی تو امریکا، کینیڈا اور برطانیہ کی طرف سے میانمار کی فوجی جنتا پر براہ راست مزید پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ جمعے کے دن ہونے والی پیش رفت پر اب یورپی یونین پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ بھی اپنے اتحادی ممالک کی طرح میانمار کی فوج پر پابندیاں عائد کرے۔


یورپی پارلیمان کے نائب اسپیکر نے اگرچہ کہا تھا کہ میانمار پر غیرقانونی قبضہ کرنے والی فوج کے علاوہ اس کے تاجر ساتھیوں پر اضافی پابندیاں عائد کرنا چاہییں۔ تاہم جب ڈی ڈبلیو نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

میانمار میں جمہوری روایات اور فوجی حکومت

میانمار میں سن 1962ء سے ملک پر قابض فوج نے عالمی دباؤ کی وجہ سے ہی سن 2010ء میں ملک کو جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ تاہم اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں سن دو ہزار دس میں ہوئے الیکشن میں آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔


سن 2016ء کے الیکشن میں سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو حصہ لینے کی اجازت ملی تو نوبل امن انعام یافتہ سوچی کی سیای جماعت نے میدان مار لیا تاہم اس وقت بھی فوجی جنتا سیاست پر اپنا اثر ورسوخ قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

لیکن 2020ء کے الیکشن میں فوجی جنتا اور اس کے حامی سیاستدانوں کو مکمل مات ہو گئی۔ جب تانماڈو(میانمار کی مسلح افواج کا سرکاری نام) کو لگا کہ اقتدار اس کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل رہا ہے تو اس نے الیکشن میں دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے یکم فرروی کو آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔


عالمی برادری قائل ہے کہ سیاسی شکست کے بعد فوجی جنتا نے سوچی کی حکومت ختم کی اور اب وہ طاقت کے ذریعے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ تاہم میانمار کی فوج ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

فوج کا کہنا ہے کہ سوچی نے ملکی قوانین کی خلاف وزری کی، جس کی وجہ سے انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا اور ان کے خلاف مقدموں کی کارروائی شفاف ہے۔ ملکی فوج نے کہا ہے کہ وہ سن 2023ء میں الیکشن کروائے گی اور ملک کا اقتدار جمہوری منتخب شدہ حکومت کے سپرد کر دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔