دنیا بھر میں حصول تعلیم سے محروم سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور

یونیسیف نے دنیا بھر میں حصول تعلیم کے بجائے مشقت پر مجبور بچوں کی تعداد میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث مزید اضافے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اس وقت سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور ہیں۔

دنیا بھر میں حصول تعلیم سے محروم سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور
دنیا بھر میں حصول تعلیم سے محروم سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور
user

Dw

یونیسیف کی طرف سے جمعہ دس جون کے روز جرمن شہر کولون میں بتایا گیا کہ کورونا کی عالمی وبا دنیا کے تقریباﹰ سبھی خطوں اور ممالک کی معیشتوں کے لیے تباہ کن اثرات کی وجہ بنی۔ اس لیے عالمی سطح یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ مشقت پر مجبور وہ بچے، جنہیں اپنی عمر کے لحاظ سے تعلیم کے لیے اسکولوں میں ہونا چاہیے تھا، ان کی تعداد بڑھی ہے اور آئندہ مزید بڑھے گی۔

بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف عالمی دن

بچوں کے اس امدادی ادارے کے مطابق کورونا کی وبا کے باعث رواں سال کے اختتام تک مختلف ممالک میں مزید نو ملین بچے مشقت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ بات اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سولہ کروڑ (160 ملین) بچے تو پہلے ہی اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔


یونیسیف نے یہ اعداد و شمار ہر سال بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے جاری کیے ہیں۔ اس سال یہ عالمی دن اتوار 12 جون کو منایا جا رہا ہے۔

اب تک ہونے والی پیش رفت بری طرح متاثر

کولون میں یہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے یونیسیف جرمنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیان شنائڈر نے بتایا کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث وہ پیش رفت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، جو اس وبا سے پہلے تک بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر دیکھنے میں آ چکی تھی۔


کرسٹیان شنائڈر کے الفاظ میں، ''عالمی برادری نے اپنے لیے یہ ہدف طے کیا تھا کہ بچوں سے لی جانے والی مشقت 2025ء میں ختم ہو جائے گی۔اب ہمیں اس ہدف کے حصول کے لیے اور بھی زیادہ توانائی سے کوششیں کرنا چاہییں، ورنہ کورونا کی وبا کے اثرات کے سبب یہ ہدف ہماری پہنچ سے اس سے بھی زیادہ دور ہو جائے گا، جتنا وہ اب تک ہے۔‘‘

اب کیا کیا جائے؟

یونیسیف جرمنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے مطابق دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے لیے تعلیم کے حصول اور مشقت سے تحفظ کے لیے نئے امکانات پیدا کریں۔ کاروباری اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا پورا خیال رکھیں۔


کرسٹیان شنائڈر نے کہا، ''ہم معاشرے میں صارفین کے طور پر اپنی زندگی کس طرح گزارتے ہیں اور کن سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس پہلو پر غور کرتے ہوئے ہم میں سے ہر کوئی اس عمل میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے کہ بچوں کے استحصال کا راستہ روکا جائے۔‘‘

تعداد میں کمی کے بعد دوبارہ اضافہ

بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او اور اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی فنڈ یونیسیف دونوں کے اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے لے کر 2016ء تک محنت مزدوری پر مجبور کم سن لڑکوں اور لڑکیوں کی عالمی سطح پر تعداد واضح طور پر کم ہو کر 94 ملین رہ گئی تھی۔


لیکن 2016ء سے لے کر 2020ء تک کے عرصے میں اس تعداد میں دوبارہ 8.4 ملین کا اضافہ ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ کہ اس وقت پوری دنیا میں 160 ملین بچے تعلیم کے لیے اسکولوں میں جانے کے بجائے مشقت کرتے ہیں اور اس سال کے آخر تک اس تعداد میں مزید نو ملین کے اضافے کا خدشہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔