ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

قومی ادارے جن کو سلامتی کا ضامن سمجھا جاتا تھا اب ایک ایسی گٹھڑی کے دفاع پر مجبور ہیں، جس میں دہائیوں کی غلطیوں کا حساب بندھا ہے۔ ایسے میں اس عزم کا اظہار کہ ہمارا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں مذاق ہے۔

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
user

Dw

سیاست کہنے کو تو یونانی زبان کے سادہ سے لفظ "پولیٹکا" لغوی معنی "شہری معاملات" سے ماخوذ ہے لیکن ذرا تفصیل میں جائیں تو سیاسیات کا تعلق اجتماعی فیصلہ سازی اور معاشرے میں طاقت و اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہے۔ اختیارات کی اس تقسیم میں معاشرے کے کم زور اور لاچار طبقوں کے مفادات کی حفاظت کا نظام، جمہوریت کہلاتا ہے۔

اس نظام میں اجتماعی مفاد کی حفاظت کا فریضہ منتخب نمائندے انجام دیتے ہیں، جو آئین و قانون کے مطابق عوام کو جواب دہ بھی ہیں۔ جمہور کے بنائے اس نظام کی عمارت مضبوط اداروں کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہے، جس کی پائیداری باہمی بھروسے، اعتماد اور احترام سے مشروط ہے۔ یہ بنیاد کہیں دکھائی تو نہیں دیتی لیکن اس کی غیر موجودگی میں نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن جب اداروں یعنی نظام کی بنیاد کی پختگی کسی بھی ذاتی یا گروہی مفاد پر قربان ہونے لگے تو تاش کے پتوں کا محل، ہوا کے کسی کم زور سے جھونکے کے سامنے بھی ڈگمگا کر رہ جاتا ہے۔


اداروں کے ستونوں پر قائم جمہوریت کا معاملہ بھی بہت ہی عجیب ہے۔ روشنی کی طرح یہ بھی یا تو مکمل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی۔ اس کی چھتر چھایہ میں رہنے والے بھی اپنے ارد گرد، ہر جگہ اپنی آزادی کی شکل میں اس کی موجودگی کو محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جب آئین و قانون گروہی و ذاتی مفادات کے تحفظ کا آلا بن کر محض موم کی ناک بن جائے تب جمہوریت بس ایک ڈھکوسلا بن کر رہ جاتی ہے۔

پاکستان بھی کہنے کو تو جمہوری نظام کے تحت چل رہا ہے مگر اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ اسی نظام کے ماتحت ادارے جب قومی مفاد کے نام پر کسی بھی قسم کے قانون سے بالا تر ہو جائیں تو پھر گلہ کس سے کریں؟


سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف خفیہ ہاتھ جب پردے کی اوٹ میں حرکت کرتے دکھائی دینے لگیں تو پھر اعتبار کا نازک دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسٹیج پر کھڑا مداری ہر دفعہ ایک ہی کرتب دہراتا رہے، ٹوپی سے باہر آتے ہی اپنی حیران آنکھوں سے مجمعے کو گھورتا کبوتر آخر کتنی دفعہ تالی بجوا سکتا ہے؟

آج کل ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کی دھوم مچی ہے۔ پردہ نشینوں کو تمام حجاب اتارتے ہوئے اپنی صفائی پیش کرنے کی خاطر سامنے آنا پڑا۔ انتہائی شستہ اردو میں کچھ گلے شکوے ہوئے، ماضی کی غلطیوں کا اعتراف اور پھر اسی وعدے کا اعادہ ہوا کہ ہمارا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس غیر معمولی پریس کانفرنس میں جہاں بہت سے سوالات کے جواب ملے وہیں بہت سے پرانے سوالوں کے جوابات کی ضرورت پہلے سے بھی کہیں زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگی ہے۔


جنگ جب اگلی صفوں کو روندتے ہوئے ان مورچوں تک پہنچ جائے جہاں بادشاہ کو خود میدان میں کودنا پڑے تو مان لیجیے کہ اب حالات قابو میں نہیں رہے۔ قومی ادارے جن کو سلامتی کا ضامن سمجھا جاتا تھا اب ایک ایسی گٹھڑی کے دفاع پر مجبور ہیں، جس میں دہائیوں کی غلطیوں کا حساب بندھا ہے۔ ایسے میں اس عزم کا اظہار کہ ہمارا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں محض مذاق محسوس ہوتا ہے۔

جب سننے والے آپ کے منہ سے تسلیم شدہ سچائی سنیں تو آپ کی سچائی پر اعتبار کا جواز موجود ہے۔ لیکن جب ماضی آپ کے قول و فعل میں تضاد کا گواہ ہو تو پھر نا اعتباری کے ستونوں پر کھڑا پُل لرزنے لگتا ہے۔


کیا ہی اچھا ہو کہ بے یقینی اور مایوسی کے ماروں کو حب الوطنی کے پرانے سبق پڑھانے کی بجائے بادشاہ گر خود سے چند سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا عوامل تھے، جن سے مجبور ہو کر انہیں حجاب کے پردے اتار کر سامنے آنا پڑا ؟ معاملات اس نہج تک کیسے پہنچے؟ کیا بہت دیر سے اور بہت کم والا معاملہ نہیں؟ کیا اس سے اس سارے نقصان کی تلافی ہو جائے گی، جو اس نظام کی چُولیں تک ہل جانے سے ہو چکا ہے؟ وہ غلطیاں جن کا آپ نے برملا اعتراف کیا، کیا وہ محض چند شوخ بچوں کی شرارتیں تھیں یا کوئی ان کا ذمہ دار بھی ہے؟ ایسا کیا ہو کہ ماضی کے صفحات میں کھوئے لوگ اس دفعہ آپ کے وعدوں پر اعتبار کر لیں؟

چھوٹا منہ اور بڑی بات، چاہے جتنی بھی پریس کانفرنسیں ہو جائیں، ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کے وعدوں کی نئی کتاب بھی بھر جائے، جو نقصان ہو چکا اس کا مداوا صرف تب ہی ممکن ہے کہ آپ کے اعمال اب آپ کے اقوال سے متضاد نہ رہیں۔ اگر جمہوریت ہی میں ہماری بقا ہے تو براہ کرم سوچیے کہ گروہی فائدے کو اجتماعی مفاد کی خاطر چھوڑ کر آگے بڑھنے کی ضرورت جیسی اب ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی یہ اختیار اور فیصلہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہمیں کس سمت میں سفر کرنا ہے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔