ڈینگو بحران کے دوران اور پاکستان میں پیناڈول کا فقدان، عوام کے لئے ایک درد سر

ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، پاکستان میں بخار اور درد کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی دوا پیناڈول کی عدم دستیابی نے بحران کی سی صورت اختیار کر لی ہے۔

پاکستانی عوام کے لیے پیناڈول کا فقدان ایک درد سر
پاکستانی عوام کے لیے پیناڈول کا فقدان ایک درد سر
user

Dw

لاہور کے ایک سینیئر معالج ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دوا بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی نے اس دوا کی قیمت بڑھوانے کے لیے اس دوا کی پروڈکشن بند کرنے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب ڈینگی، موسمی بخار اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے اس دوائی کی مانگ میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔ ان کے بقول کارپوریٹ سیکٹر کی سماجی ذمہ داریوں کا تقاضا تھا کہ غریب مریضوں کی مجبوریوں کو اپنے فائدے کے لیے اس طرح استعمال نہ کیا جاتا۔ یاد رہے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں کی شکار ہے اور امدادی اداروں کو پیناڈول سمیت کئی ادویات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس صورتحال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ پیناڈول بنانے والی ملٹی نیشنل کے وسیع بزنس کو دھیان میں رکھا جائے تو پیناڈول کی قیمت میں اضافے سے اس کے مجموعی ریوینیو میں کوئی بہت زیادہ بہتری کا امکان نہیں ہے اس کے باوجود کمپنی نے اس اہم دوا کی پروڈکشن کو بند کرنا مناسب سمجھا۔


متبادل بھی مناسب مقدار میں موجود نہیں ہیں

ڈاکٹر عاصم کے مطابق بخار اور درد کے لیے کوئی درجن بھر ادویات موجود ہیں۔ ان کے مطابق پینا ڈول ایک برانڈ کا نام ہے اور اس میں استعمال ہونے والے سالٹ پیراسیٹامول کو کئی دیگر برانڈز کے ناموں کے ساتھ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف میڈیکل اسٹورز پر رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ پیناڈول کا مارکیٹ شیئر بہت زیادہ تھا اس لیے باقی برانڈز کی ادویات مل کر بھی اس کی کمی کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ لہٰذا پیناڈول کی یہ متبادل ادویات بھی مناسب مقدار میں مارکیٹ میں موجود نہیں ہیں۔ برکت مارکیٹ کے علاقے میں ڈسپرول کی راشننگ کی جارہی ہے۔ ایک گاہک کو دو پتوں سے زیادہ نہیں دیے جا رہے ہیں۔ کال پول کئی میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہ ہونے کی شکایات ہیں۔

ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ پیناڈول کے متبادل کے طور پر جو ادویات استعمال ہو سکتی ہیں ان میں کال پول، فبرول، پیراسیٹامول اور ڈسپرول وغیرہ بھی شامل ہیں لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ ڈینگی کے مریضوں کے لیے پیناڈول کا استعمال اس لیے بہتر ہے کہ اس کے سائیڈ ایفکٹس نہیں ہیں اور یہ پلیٹ لیٹس کی تعداد کو کم کرنے کا باعث نہیں بنتی۔


یاد رہے پاکستان میں چھوٹے موٹے درد، بخار یا گلے کی خارش کے لیے بہت سے لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے گھر میں موجود پیناڈول لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عام لوگ جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں ان کو پیناڈول کی متبادل ادویات کے بارے میں آگاہی نہیں ہے اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ نیلم بلاک اقبال ٹاؤن کے ایک رہائشی محمد سجاد نے بتایا کہ اسے ڈینگی بخار ہے اور پیناڈول نہ ملنے کی وجہ سے وہ بغیر دوا کے تکلیف میں مبتلا ہے۔

ذخیرہ اندوزوں کی چاندی

مارکیٹ ذرائع کے مطابق شدید ڈیمانڈ کے دنوں میں پیناڈول اسٹال کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو گئی ہے اس وقت بھی کئی علاقوں میں پینا ڈول کا دس گولیوں والا پتا جس کی قیمت سترہ روپے کے قریب ہے وہ ایک سو بیس سے ایک سو پچاس روپے فی پتا کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے کئی دیہی علاقوں میں اس کی قیمت دو سو روپے سے بھی زائد طلب کی جا رہی ہے۔


اصل قصورحکومت کا ہے؟

پاکستان ڈرگ لائیرز فورم کے صدر نور محمد مہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پینا ڈول کی عدم دستیابی کی اصل وجہ عالمی منڈی میں اس کے خام مال کی عدم دستیابی اور اس کی قیمتوں میں ہونے والا شدید اضافہ ہے۔ دنیا بھر میں اس دوا کا خام مال فراہم کرنے والی چینی کمپنیاں بیجنگ سے ستر کلومیٹر دور نئے علاقے میں شفٹ ہو رہی ہیں۔ اس لیے سپلائی کے ایشوز ہیں۔ عالمی منڈی میں پیناڈول کے خام مال کی قیمت میں ساٹھ فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں ہونے والے ردوبدل نے بھی پیداواری لاگت کو متاثر کیا ہے۔ ''پیناڈول بنانے والے دواساز ادارے نے مسلسل نقصان کی وجہ سے یہ دوا بنانا بند کر دی ہے۔ اس بحران کا واحد حل یہ ہے کہ اس دوا کی قیمت کا منصفانہ طور پر تعین کیا جائے۔ ‘‘

نور مہر کے بقول عمران خان کے اقتدار کے آخری دنوں میں ادویات کی قیمت مقرر کرنے والے ادارے نے پیناڈول کی قیمت بڑھانے کی سفارش کی تھی لیکن عمران خان کی حکومت چلی گئی اور موجودہ حکومت مخالفین کی تنقید کے خوف سے یہ قیمت بڑھانے سے گریز کر رہی ہے اور عوام یہ دوا حاصل کرنے کے لیے مجوزہ قیمت سے کہیں زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔


ایک طرف حکومت پیناڈول کی قیمت مقرر کرنے میں ناکام رہی ہے دوسری طرف حکومت نے پیناڈول بنانے والی کمپنی جے ایس کے کو اختیار دیا ہے کہ وہ میڈیکل اسٹور والوں کا کمیشن کم کرکے اپنا نقصان پورا کرنے کی کوشش کریں لیکن ادویات ساز کمپنیوں کے نزدیک یہ تجویز قابل عمل نہیں ہے۔

ادویات ساز اداروں کی نیت بھی ٹھیک نہیں

نور محمد مہر بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پیناڈول بنانے والی کمپنی گلیکسو سمتھ کلائن (جے ایس کے) ہے جو دنیا کی بہت بڑی ادویات ساز کمپنی ہے اور اس کا ریسرچ کا بجٹ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ ان کے بقول یہ کمپنی ہر ماہ پینتالیس کروڑ کے لگ بھگ پیناڈول کی گولیاں بناتی رہی ہے۔ لیکن اب حکومت اور میڈیا نے اس کمپنی پر سارا دباؤ ڈال دیا ہے جبکہ ایک سو بیس کمپنیوں نے یہ دوا بنانے کے لیے اپنے آپ کو رجسٹر کرا رکھا ہے اور ڈرگ ایکٹ انیس سو چھیتر کے مطابق ان کے لیے بھی اس دوا کی ایک خاص مقدار بنا کرمارکیٹ میں لانا ضروری ہے ان سے بھی باز پرس کی جانی چاہیے۔ اب صرف چار پانچ کمپنیاں یہ دوا بنا رہی ہیں۔ جے ایس کے کا مارکیٹ شیئر نوے فی صد سے بھی زیادہ ہے۔


الزامات جوابی الزامات

ادویات ساز ادروں کی ایسوسی ایشن کے ایک سینیئر رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل ادویات کی قیمتوں کے تعین سے متعلقہ وزارت کے وزیر ہیں۔ انہیں سارے حالات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے بقول لگتا یہ ہے کہ جب تک پس پردہ ڈیل نہیں ہو گی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ادویات ساز ادارے بنیادی طور پر بدنیت ہیں وہ پیناڈول کی آڑ میں بہت سی دوسری ادویات کے لیے قیمتوں میں ناجائز اضافہ چاہتے ہیں ۔ حکومت ان کی بلیک میلنگ میں نہیں آ رہی ہے۔ ''حکومت نے پیناڈول بنانے والی کمپنی کا خسارہ پورہ کرنے کے لیے سب سڈی دینے کی آفر کی تھی لیکن پھر دوسری ادویات ساز کمپنیوں نے بھی اسی طرح کے مطالبات شروع کر دیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔