اسرائیل: چہرے پہچاننے والے باڈی کیمرا کی متنازعہ ٹیکنالوجی

ڈینی تِرزا  کی کمپنی ایسے باڈی کیمرے بنا رہی ہے، جس کی مدد سے چہرے کی شناخت کی خاطر ایک ڈیٹا بیس بنانا ممکن ہو جائے گا، اور کسی بھی شخص کی پہچان انتہائی آسان ہو جائے گی۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

سابق اسرائیلی کرنل ڈینی تِرزا کا کہنا ہے کہ ان کی یوزموٹ لمیٹڈ نامی کمپنی ایسے باڈی کیمرے تیار کر رہی ہے، جس کی مدد سے پولیس ہجوم بھی مشتبہ افراد کو فوراﹰ پہچان سکے گی، ''چاہے کسی شخص نے چہرے پر ماسک بھی پہنا ہو۔‘‘ عمومی طور پر ایسے کیمروں کا استعمال پولیس اہلکار کرتے ہیں۔ یہ کیمرے ان کی وردی پر لگے ہوتے ہیں، جو کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے عمل کو ریکارڈ کرتے ہیں تاکہ بعد ازاں اس ویڈیو کی مدد سے شواہد کو پرکھا بھی جا سکے۔

سکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فیشل ریکگنیشن یعنی چہرے کی شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال پر عالمی سطح پر تنقید کی جاتی ہے۔ امریکی ٹیکنیکل کمپنیاں پولیس کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ اس سے پرائیوسی یا نجی معلومات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تاہم تِرزا کی طرح دیگر افراد اس ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم پیشہ اور لاپتہ افراد کا سوراغ لگانے کی صلاحیت پر زور دیتے ہیں، ''اس سے پولیس کو بروقت معلوم ہو جائے گا وہ کس کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘


چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کی صنعت

مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادی میں رہنے والے تریسٹھ سالہ تِرزا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بہت جلد تل ابیب میں واقع 'کورسائٹ اے آئی‘ نامی کمپنی کی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ یہ باڈی کیمرے استعمال کیے جا سکیں گے۔ ان کیمروں کی مدد سے ہجوم میں بھی مطلوبہ لوگوں کی شناخت کی جاسکتی ہے، چاہے کسی نے ماسک پہنا ہو، یا پھر چہرے پر میک اپ کیا ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی دہائیوں پرانی تصویر سے بھی انسانوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ تِرزا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان کی کمپنی یوزموٹ اور کورسائٹ کے درمیان شراکت داری کا کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا سکا ہے۔

کورسائٹ کے سی ای او راب واٹس نے کسی قسم کی تفصیلات یا معاہدے کی تصدیق کیے بغیر بتایا کہ ان کی کمپنی دنیا بھر میں ایسے دو سو تیس 'گروپس‘ کے ساتھ کام کر رہی ہے جنہوں نے فیشل ریکگنیشن کا سافٹ ویئر کیمروں میں شامل کروایا ہے۔


واٹ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف کام لیے جاسکتے ہیں، جیسے کہ گاہکوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنا، کمپنی کے کون سے ملازمین دفتر کی عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں، یا پھر اسٹیڈیم میں ٹکٹ کے ساتھ ہی لوگ داخل ہونا، اور پولیس کے لیے مشتبہ اور مفرور افراد کی تلاش۔ انہوں نے بتایا کہ آسٹریلوی اور برطانوی پولیس پہلے ہی اس ٹیکنالوجی کے آزمائشی نمونے پر کام کر رہی ہیں۔

مارکٹ ریسرچ کمپنی مورڈور انٹیلیجینس کے تخمینے کے مطابق چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کی صنعت کی مالیت سن 2020 میں تقریبا تین اعشاریہ سات ارب ڈالر تھی، جو کہ سن 2026 تک گیارہ اعشاریہ چھ ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔


فیشیل ریکگنیشن کے استعمال پر تنقید

فیس بک، مائیکروسافٹ، ایمیزون، اور آئی بی ایم نے پہلے ہی سکیورٹی اداروں کو فیشل ریکگنیشن کے پروگرام فروخت کرنے پر عارضی یا مستقل پابندی عائد کر رکھی ہے۔

فرانس نے گزشتہ ماہ 'کلیئر ویو اے آئی‘ نامی امریکی کمپنی کو اپنے شہریوں سے منسلک ڈیٹا کو حذف کرنے کا حکم دیا۔ فرانسیسی اداروں کے مطابق انٹرنیٹ سے جمع کی گئی تصاویر کی مدد سے چہروں کی شناخت کا ڈیٹا تیار کرنا پرائیویسی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔


اس کے جواب میں راب واٹس کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی انسانی حقوق اور اخلاقیات کے بنا پر چین، روس یا پھر میانمار کو یہ ٹیکنالوجی نہیں فروخت کرے گی۔ ''ہم فیشنل ریکگنیشن کو ایک مثبت قوت کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

جاسوسی کے اسرائیلی سافٹ ویئر

اسرائیل میں تیار کی جانے والی نگرانی کی ٹیکنالوجی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلیجینس کے سابق افسران نے این ایس او گروپ قائم کیا تھا۔ اسی گروپ نے پیگاسس اسپائی ویئر بنایا جس سے موبائل فون کی جاسوسی کی جاسکتی ہے۔ امریکی حکام نے نومبر میں این ایسو کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔ ایپل اور فیس بک نے اس کمپنی کے خلاف اس وقت ہرجانے کا مقدمہ کردیا، جب اس اسپائی ویئر کا صحافیوں اور ناقدین کے موبائل فون میں انکشاف ہوا۔ این ایس او کا کہنا ہے پیگسس اسرائیلی وزارت دفاع کے برآمدی قوانین پر پورا اترتا ہے۔


فلسطینیوں کے چہروں کا ڈیٹا بیس

چہرے کی شناخت کے اسرائیلی سافٹ ویئر پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں سابق اسرائیلی فوجیوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے فیشل ریکگنیشن کے لیے ڈیٹا بیس تیار کرنے کے مقصد سے مغربی کنارے کے شہر الخلیل یا ہیبرون میں ہزاروں فلسطینیوں کی تصاویر کھینچی تھیں۔

اسی طرح سال 2020 میں، مائیکروسافٹ نے چہرے کی شناخت کرنے والی اسرائیلی کمپنی AnyVision سے علیحدگی اختیار کر لی، کیونکہ یہ کمپنی فلسطینیوں کی نگرانی میں مبینہ طور پر شامل تھی۔ اسی کمپنی کا نام اب Oosto رکھا گیا ہے اور یہ اسرائیلی سکیورٹی ایجنسیز اور نجی کمپنیوں کے ساتھ دنیا بھر میں کام کرتی ہے۔


فلسطینی ڈیجیٹل رائٹس کے سرگرم کارکن ندیم ناشف کہتے ہیں کہ چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے استعمال نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے ’’کنٹرول‘‘ کو مضبوط کیا اور عوامی مقامات پر گرفت میں مزید اضافہ کیا۔ لیکن تِرزا چیک پوائنٹس پر اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ''اس کا اہم مقصد فوجیوں اور شہریوں کے درمیان تصادم کو کم کرنا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔