ہم جنس پرستی پر بھارتی فلم، فوج نے عکس بندی کی اجازت نہیں دی

بھارت میں مودی حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ منظم انداز میں سینسر شپ کا نفاذ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس مناسبت سے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور غیر حکومتی تنظیموں کو حکومتی شکنجے کا سامنا ہے۔

ہم جنس پرستی پر بھارتی فلم، فوج نے عکس بندی کی اجازت نہیں دی
ہم جنس پرستی پر بھارتی فلم، فوج نے عکس بندی کی اجازت نہیں دی
user

Dw

بھارت میں ایک مشہور فلم ساز و ہدایتکار اونیر ایک ایسی فلم کو پروڈیوس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، جس میں ایک بھارتی فوجی افسر اپنے ہم جنس پرستانہ رجحان کی وجہ سے فوج میں میجر کے عہدے کی نوکری کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔

اونیر کو اس موضوع پر فلم بنانے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ اس ملک کا بظاہر تشخص سیکولر اور جمہوری ہے۔ فلم کی اسکرپٹ کو بھارتی فوج نے منظور نہیں کیا اور نہ ہی اس کی عکس بندی کی اجازت دی گئی۔


اونیر کے راستے میں حائل قانون

سن 2020 میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ایک قانون کی منظوری دی تھی اور اس کے مطابق بھارتی فلم سازوں کو فوج کے موضوع پر بنائی جانے والی فلم کی کلیئرنس لینا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

یہ کلیئرنس کوئی سیول محکمہ نہیں بلکہ وزارتِ دفاع اور فوج نے ہی دینا ہوتی ہے۔ اس قانون کو حقوق کےطور پراکثر حلقوں نے آزادئ اظہار کے منافی قرار دے رکھا ہے۔ انسانی حقوق کے ورکرز اور حقوق کی غیر حکومتی تنظیموں نے اس قانون کو 'اورویلیئن‘ اور غیر دستوری قرار دیا تھا۔


یہی قانون فلم ساز اونیر کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا اور انہیں فلم بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ امر اہم ہے کہ فلم ساز اونیر، جو اپنا صرف ایک نام استعمال کرتے ہیں، خود بھی کھلے ہم جنس پرست ہیں۔ وہ بالی ووڈ انڈسٹری کے پہلے ایسے فرد ہیں، جنہوں نے اپنے جنسی میلان کو کُلی طور پر واضح کر رکھا ہے۔

بھارتی فوجی افسر کی حقیقی کہانی پر فلم

اونیر یہ فلم بھارتی فوج کو خیرباد کہنے والے میجر جے سریش کے کرادر پر بنانا چاہتے ہیں، جنہوں نے آرمی چھوڑنے پر کہا تھا کہ وہ، ''آزاد، آؤٹ، اور پراؤڈ‘‘ ہیں۔ سابق فوجی افسر جے سریش نے اپنے بلاگ میں تحریر کیا کہ وہ ایک گَے یا ہم جنس پرست ہیں اور اپنے ہم جنس پرست ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔


یہ امر اہم ہے کہ سابق میجر سریش بھارت کے کئی افراتفری کے شمار علاقوں میں متعین رہے تھے۔ اس میں خاص طور پر کشمیر میں بھی ان کی تعیناتی کی گئی تھی۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد جے سریش کا ایک انٹرویو ملکی ٹیلی وژن پر بھی نشر کیا گیا تھا اور اس کو جہاں بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہوئی وہاں بعض حلقوں کی شدید تنقید کا سامنا بھی رہا تھا۔

اونیر کی فلم

بھارت کے ہم جنس پرست فلم ساز و ہدایتکار اونیر کی ممکنہ فلم کا نام 'ہم ہیں‘ تجویز کیا گیا تھا۔ اونیر کے مطابق اس فلم میں ایک ساتھ چار مختلف ہم جنس پرست کرداروں کی کہانیوں کو شامل کیا گیا تھا۔


ان چار کرداروں میں ایک ٹرانس جینڈر عورت، ایک لیزبیئن عورت، ایک بائی سیکسوئل مرد اور ایک ہم جنس پرست مرد کی ایک کشمیری لڑکے کے ساتھ فرضی محبت کی کہانی شامل کی جانا تھی۔

اونیر کے مطابق اس کہانی کو بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے نو اوبجیکشن سرٹیفیکیٹ نہیں جاری کیا گیا اور یہ فلم بس کاغذوں میں ابھی تک دھری ہے۔ اونیر کے مطابق وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ فلم کی کہانی میں فوج کے ایک میجر کو ہم جنس پرست دکھایا گیا ہے اور یہ غیرقانونی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔