دہلی: مسلمانوں کا بائیکاٹ اور سر قلم کرنے کی اپیل

بھارت کے قومی دارالحکومت میں وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو گروپوں کے زیر اہتمام منعقدہ ایک جلسہ عام میں مسلم مخالف اور انتہائی منافرت آمیز تقریریں کی گئیں۔

دہلی: مسلمانوں کا بائیکاٹ اور سر قلم کرنے کی اپیل
دہلی: مسلمانوں کا بائیکاٹ اور سر قلم کرنے کی اپیل
user

Dw

اس جلسہ عام میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش سنگھ ورما نے مسلمانوں کا مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی اور وہاں موجود لوگوں سے اس کا حلف بھی لیا۔ اس موقع پر کئی اراکین اسمبلی، وی ایچ پی کے رہنما اور پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔

دہلی میں اتوار کے روز یہ جلسہ ایک 25 سالہ ہندو نوجوان کے قتل کے خلاف مبینہ احتجاج کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ موبائل فون چوری کے ایک کیس کے سلسلے میں منیش نامی مذکورہ نوجوان کو مبینہ طور پر تین مسلم نوجوانوں نے چاقو مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق قتل کا یہ واقعہ پرانی دشمنی کا معاملہ ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


پرویش سنگھ ورما نے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "اگر انہیں سبق سکھانا ہے اور ایک ہی بار میں مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کا ایک ہی علاج ہے، ان کا مکمل بائیکاٹ۔" انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے حلف لیا، "ہم ان سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، ہم ان کی دکانوں سے سبزیاں نہیں خریدیں گے۔" ورما نے مزید کہا،"آپ کو بس یہی ایک کام کرنا ہے، یہی ان کا علاج ہے۔"

تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ورما پر سخت نکتہ چینی کی جارہی ہے حالانکہ ایک حلقہ ان کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ ورما نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا، "میں نے کسی مذہبی فرقے کا نام نہیں لیا۔ میں نے تو صرف یہی کہا کہ جن لوگوں نے قتل کیا ہے ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایسے کنبوں کا اگر کوئی ہوٹل ہے، یا ان کی تجارت ہے تو اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔"


سخت ردعمل

متعدد سماجی، سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بی جے پی رہنما کے بیان کی سخت مذمت کی ہے۔ متعدد افراد نے ورما کی تقریر کی ویڈیو وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ٹیگ بھی کی ہے۔

بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان کا یہ مسلم مخالف بیان وزیر اعظم نریندر مودی کے "سب کا ساتھ، سب کی ترقی اور سب کا اعتماد"کے نعرے کے یکسر برخلاف ہے۔


نوید حامد کے بقول ایسے بیانات کے یقیناً بین الاقوامی مضمرات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی سے سوال کیا، "کیا مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ آپ کی حکومت یا آپ کی پارٹی کی سرکاری پالیسی ہے اور کیا آپ نفرت بھڑکانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟"

رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ایک ٹویٹ کر کے کہا کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے، ''اگر حکمراں جماعت کا رکن پارلیمان قومی دارالحکومت میں اس طرح کی بات کر سکتا ہے تو پھر ملکی آئین کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟"


کانگریس پارٹی کی ترجمان شمع محمد نے ان تقریروں کے لیے کسی کے خلاف اب تک کارروائی نہ کرنے پر دہلی پولیس کی نکتہ چینی کی اور سوال کیا، "کیا وزیر اعظم مودی ایسی تقریروں کی مذمت کریں گے؟"

مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل

مذکورہ جلسے میں موجود کئی ہندو مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں پر حملے کرنے اور ان کے ہاتھ اور سر قلم کر دینے کی بھی اپیل کی۔


جگت گرو یوگیشور آچاریہ کا کہنا تھا،"اگر ضرورت پڑے تو ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کے سر کاٹ دو۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، آپ کو جیل جانا پڑے گا، لیکن اب ان لوگوں کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ ان لوگوں کو چن چن کر مارو۔"

ایک دیگر ہندو مذہبی رہنما مہنت نول کشور داس نے ہندوؤں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس لائسنس یا بغیر لائسنس والی بندوقیں ہیں، ''اگر نہیں تو بندوقیں حاصل کرو، لائسنس حاصل کرو۔ اگر لائسنس نہ ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ کیا جو لوگ آپ کو مارنے آتے ہیں ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کو بھی کسی لائسنس کی ضرورت نہیں۔"


مہنت نول کشور کا کہنا تھا، "اگر ہم مل کر رہیں گے تو پولیس بھی کچھ نہیں کرے گی، بلکہ دہلی پولیس کمشنر ہمیں چائے پلائیں گے اور ہم جو کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں گے۔" بی جے پی اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی نندکشور گوجر نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو خنزیر قرار دیا۔ ان کے بقول اس کی وجہ سے"ہمارا خوبصورت شہر خنزیروں کا شہر بن گیا ہے۔"

اب تک کوئی کارروائی نہیں

پولیس کا کہنا ہے کہ ان منافرت آمیز تقریروں کے لیے کسی کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے کیونکہ کسی نے ان کے خلاف رپورٹ درج نہیں کرائی ہے۔


خیال رہے کہ ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ قومی دارالحکومت میں بھی اس طرح کی منافرت آمیز تقریریں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، جس کی دنیا بھر میں نکتہ چینی ہوئی ہے۔

رواں برس امریکہ نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو چین، پاکستان اور افغانستان سمیت"خصوصی تشویش والے ممالک" کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔