یورپ سے افغان مہاجرین کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ایمنسٹی

افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی اس ملک میں امن و امان کی صورت حال مسلسل ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ان حالات میں جرمنی کو افغان مہاجرین کی ملک بدری روک دینی چاہیے؟

یورپ سے افغان مہاجرین کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ایمنسٹی
یورپ سے افغان مہاجرین کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ایمنسٹی
user

Dw

بدھ تیرہ جولائی کو افغان صوبے قندھار میں ایک سرحدی گزرگاہ پر طالبان نے افغان پرچم اتار کر اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ بنیاد پرست سخت عقیدے کے طالبان ملک میں اپنا دائرہ اثر کس طرح پھیلاتے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ملک کا پچاسی فیصد حصہ اس وقت ان کے زیر اثر ہے۔ یہ بھی عام تاثر ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے بعد طالبان عسکریت پسند اپنی کارروائیوں میں مزید تیزی لے آئیں گے۔

افغان مہاجرین کی ملک بدری روک دی جائے

گزشتہ ویک اینڈ پر کابل میں قائم افغان حکومت نے یورپی حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ افغانستان میں سلامتی کی حالات اور کورونا وبا کے تناظر میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کو کم از کم تین ماہ کے لیے معطل کر دیں۔


اس اپیل کے باوجود بعض یورپی حکومتیں افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں جرمنی بھی شامل ہے۔ ابھی سات جولائی کو جرمنی سے ستائیس افراد کو ایک پرواز کے ذریعے واپس افغانستان روانہ کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر کا جرمنی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا ریکارڈ موجود تھا۔ جرمنی سے واپس بھیجا جانے والا یہ چالیسواں گروپ تھا۔

سی ڈی یو کا موقف

جرمن پارلیمنٹ میں سب سے بڑے سیاسی گروپ یعنی دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی حکمران سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹ یونین (سی ڈی یو) اور اس کی حلیف جماعت کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کے ڈپٹی چیئرمین تھورسٹن فرائی نے افغان حکومت کی مہاجرین کی واپسی کا عمل معطل کرنے کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک بدری کا سلسلہ روکنے کی بظاہر کوئی مضبوط بنیاد نہیں بنائی گئی ہے۔ فرائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمنی کی وفاقی ریاستیں اپنی جگہ پر آزاد ہیں اور وہ وفاقی حکومت کی سفارش پر ملک بدریوں کو روکنے کی مجاز ہیں۔


چند روز قبل جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا تھا کہ افغان مہاجرین کی واپسی تشدد بڑھنے کے باوجود صحیح سمت میں ہے۔ جرمنی سے افغان مہاجرین کی واپسی کا سلسہ سن 2016 سے جاری ہے اور اب تک ایک ہزار ایک سو چار افراد کو خصوصی پروازوں کے ذریعے کابل پہنچایا جا چکا ہے۔

ریفیوجی تنطیمیں ملک بدری روکنے کی حمایت میں

افغانستان کی سلامتی کے حالات کے تناظر میں فن لینڈ افغان مہاجرین کی واپسی پر عمل درآمد روک چکا ہے۔ دوسری جانب ریفیوجی تنظیمیں دیگر یورپی اقوام کو فن لینڈ کی تقلید کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے جرمنی سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سردست افغان مہاجرین کی واپسی کے سلسلے کو روک دے۔


انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے کیونکہ ان مہاجرین کا ملک جنگی حالات کا شکار ہے۔ ایمنسٹی سے وابستہ ایشیا کی انسانی حقوق کی ماہر تھریسا بیرگمان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی درخواست پر جرمن حکومت کو مثبت ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرگمان کا مزید کہنا ہے کہ جرمن قانون بھی یہی کہتا ہے کہ انسانی بنیادوں پر ملک بدری کو روکنا ممکن ہے۔

لاکھوں افغان شہری پناہ کی تلاش میں

گلوبل پیس انڈیکس میں افغانستان رہنے کے لیے ایک انتہائی خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اقوام عالم کو متنبہ کیا ہے کہ اس ملک کی داخلی صورت حال انتہائی مخدوش ہو گئی ہے اور ایک بڑا انسانی المیہ اور بحران جنم لینے والا ہے کیونکہ پرتشدد حالات کی وجہ سے بے شمار افراد کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہونے کے بعد پینتیس لاکھ افراد گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔