’امیگریشن فوائد سے زیادہ نقصانات لاتی ہے‘

جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی طرف سے موجودہ رجحان کا ایک سروے کروایا گیا جس سے پتا چلا کہ جرمنی میں اس وقت اکثریت کا کہنا ہے کہ ’امیگریشن فوائد سے زیادہ نقصانات لاتی ہے۔‘

’امیگریشن فوائد سے زیادہ نقصانات لاتی ہے‘
’امیگریشن فوائد سے زیادہ نقصانات لاتی ہے‘
user

Dw

تارکین وطن کے بارے میں تحفظات جرمنی میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ برقرار ہے۔ یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے اس ملک میں ہر دوسرے شخص یا (54 فیصد) سے زیادہ کی رائے میں، جرمنی کے لیے امیگریشن کے نقصانات فائدے سے کہیں زیادہ ہیں، جب کہ صرف ایک تہائی (33 فیصد) اس کے زیادہ فوائد دیکھتے ہے۔ جرمنی میں ہر دوسرا شہری چاہتا ہے کہ جرمنی ماضی کے مقابلے میں اب کم مہاجرین کو اپنے ہاں لے۔

جرمنی میں رائے عامہ کے تحقیقی ادارے infratest-dimap نے مئی کے آغاز میں ووٹ دینے کے حقدار 1,360 شہریوں کا انٹرویو کیا۔ عوامی رائے کی اس بارے میں صورتحال کچھ یوں سامنے آئی کہ بڑی عمر کے ووٹرز امیگریشن کے بارے میں اکثر نوجوانوں کے مقابلے میں زیادہ تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، ان میں جرمنی کے مشرقی علاقوں کے شہریوں کی تعداد مغربی علاقوں کے شہریوں سے زیادہ ہے اور یہ توقع کے برخلاف نہیں۔ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے حامیوں میں امیگریشن کے حوالے سے شکوک و شبہات سب سے زیادہ پائے گئے۔


پناہ گزینوں کے موضوع پر کانفرنس

گزشتہ برس یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد دس لاکھ سے زیادہ افراد فرار ہوکر جرمنی آ گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی، تقریباً 244,000 لوگوں نے پناہ کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ ان درخواست دہندگان میں زیادہ تر کا تعلق شام، افغانستان اور ترکی سے ہے۔ حالیہ مہینوں میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جنوری سے مارچ 2023 ء تک، فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز کو 80,000 سے زیادہ پناہ کی درخواستیں موصول ہوئیں۔

جرمنی کی شہری انتظامیہ اور مقامی برادریوں پر پناہ گزینوں کی رہائش اور دیکھ بھال کے کام کا اس قدر بوجھ پڑا کہ وہ کراہ رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے جگہ کی شدید کمی ہے، زیادہ سے زیادہ خیمے اور کنٹینر لگائے جا رہے ہیں۔ 10 مئی کو، چانسلر اولاف شولس وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعظم اور میئرز سے بات کرنا چاہتے ہیں کہ ان حالات سے نمٹنے کے لیے مزید کیا کیا جا سکتا ہے۔


سیاستدانوں پر تنقید

مذکورہ رائے عامہ کے سروے میں شامل قریب ہر دس میں سے چار افراد کا کہنا تھا کہ جرمن حکومت پناہ گزینوں کی رہائش اور دیکھ بھال کے لیے کافی اقدامات کر رہی ہے۔ ہر دس میں سے تین یعنی 29 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے جرمنی دراصل پناہ گزینوں کو رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرنے میں کافی آگے بڑھ گیا ہے جبکہ 27 فیصد کی رائے میں مہاجرین کے لیے جرمن سیاستدانوں نے اب تک خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ ARD Deutschlandtrend کے مطابق، شہریوں کو شدید شکوک و شبہات ہیں کہ سیاستدان امیگریشن سے جڑے مسائل کو صحیح طریقے سے سمجھ رہے ہیں۔

جرمن معاشرے میں جہاں مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے بارے میں عمومی طور پر تحفظات پائے جاتے ہیں وہیں دس میں سے چھ رائے دہندگان یا 60 فیصد نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ بحیرہ روم میں جان جوکھوں میں ڈال کر یورپ کی طرف ہجرت اختیار کرنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو بچانے کے لیے نجی ت.نظیمیں اور مہمیں جاری ہیں اور ان کے اہلکار پناہ گزینوں کو با حفاظت یورپی بندرگاہوں تک پہنچانے کی انتھک کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح 60 فیصد رائے دہندگان کی رائے ہے کہ یورپی یونین کی ریاستوں کو بھی مہاجرین کو بچانے اور انہیں یورپی بندرگاہوں تک پہنچانے کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے چاہییں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔