بی ایچ یو کو رام دیال منڈا جیسے وائس چانسلر کی ضرورت

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

بہت سارے لوگ رام دیال منڈا کا نام نہیں جانتے۔ وہ بہت تھوڑے وقت کے لیے راجیہ سبھا رکن اور یو پی اے سربراہ سونیا گاندھی کے ذریعہ تشکیل قومی صلاح کار کمیٹی کے رکن تھے۔ کینسر نے انھیں ایسے وقت میں چھین لیا جب ان کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان سے میری جان پہچان تھی اور میرے پاس ان کی یادیں ہیں۔ اگست میں جب میں نے ان کی زندگی پر ان کے صاحبزادے کے ذریعہ بنائی گئی اور پرانے دوست میگھ ناد کے ذریعہ ڈائریکٹ کی گئی فلم دیکھی تو ان سے منسلک یادیں ایک بار پھر تازہ ہو گئیں۔ اس اتوار بی ایچ یو میں ہوئے افسوسناک واقعات کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر رام دیال منڈا کی یاد آ گئی۔

منڈا قبیلہ کے رام دیال نے 17 سال امریکہ میں گزارے۔ ان میں سے 7 سال شکاگو یونیورسٹی میں بشریات (اینتھروپولوجی) کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اور بقیہ سال ایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے گزرے۔ انھوں نے ایک امریکی خاتون سے شادی کی اور ایک خوشحال شادی شدہ زندگی بسر کی۔ لیکن جب رانچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور آئی اے ایس افسر ڈاکٹر کمار سریش سنگھ نے انھیں قبائلی اور علاقائی زبان کا ایک محکمہ شروع کرنے کی دعوت دی تو وہ بخوشی تیار ہو گئے اور اپنی بیگم ہیجل کو ساتھ کھینچ لائے۔

ڈاکٹر سنگھ نے ان سے میرا تعارف کروایا تھا اور بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ وہ کتنے غیر معمولی شخص ہیں۔ محکمہ کے سربراہ کی شکل میں اپنا کام شروع کرنے کے فوراً بعد انھوں نے اوپن ائیر آڈیٹوریم کے لیے فنڈ کا مطالبہ کیا۔ لیکن یونیورسٹی کے پاس دینے کے لیے روپے نہیں تھے۔ اپنے مطالبہ پر بضد رام دیال نے اپنے طلبا اور معاون اساتذہ کو متحرک کرتے ہوئے ایمپی تھیٹر کی تعمیر کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ انھوں نے اپنی جیب سے کتنے روپے خرچ کیے لیکن میں نےڈاکٹر رام دیال منڈا، دیگر اساتذہ اور طلبا کو گیلری کے لیے اینٹ ڈھوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ خبر ’دی ٹیلی گراف‘ کے لیے ایک بڑی خبر تھی جس کے لیے میں اس وقت کام کر رہا تھا۔

مجھے وہ وقت یاد ہے جب ان سے بات کرنے کے لیے میں انھیں تلاش کرنے نکل پڑا تھا۔ وہ رانچی کالج کے ٹھیک پیچھے اپنے لیے ایک گھر کی تعمیر کرا رہے تھے۔ گھر کے باہر ان کی موٹر سائیکل کھڑی دیکھ کر میں اطمینان ہو گیا کہ وہ یہیں ہوں گے۔ لیکن وہاں رام دیال منڈا کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا اور پھر آواز دی۔ انھوں نے کہیں سے جواب دیا، لیکن میں انھیں دیکھ نہیں سکا۔ آخر میں وہ ایک سیڑھی سے نیچے اترتے ہوئے نظر آئے۔وہ خود سے چھت کی ڈھلائی کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ قبائلیوں کا رواج ہے جس میں سارے دوست اور رشتہ دار مل کر گھر کی تعمیر کرتے ہیں۔

زیادہ تر قبائلیوں کی طرح وہ بھی سنگیت اور رقص پسند کرتے تھے۔ رانچی میں جب سابق یو ایس آئی ایس (اب امریکن سنٹر) کے ذریعہ امریکی فولک سنگر بل کروفٹ کی میزبانی کی گئی تو وہ رام دیال منڈا کو ایک بڑا ڈھول اور بانسری بجاتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے پڑھانے کے طریقوں میں کئی تبدیلیاں کی تھیں۔ وہ اپنے طلبا کو چھٹی کے دوران لوک کتھاؤں، مقامی سنگیت اور سینئر لوگوں سے بات چیت کے ذریعہ اپنے گاؤں کی تاریخ کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے کہتے تھے۔ وہ طلبا سے بات چیت کے لیے محکمہ میں ہر ہفتہ باہری لوگوں کو مدعو کرتے تھے۔ ان باہری لوگوں میں کسان، صحافی اور سرکاری ملازم ہوا کرتے تھے۔

اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ انھوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔ ان کی شخصیت انتہائی پرکشش تھی۔ وہ لمبے، گہرے رنگ کے اور خوبصورت تھے۔ ان کی آنکھیں تقریباً ہر وقت چمکتی رہتی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ تیرتی رہتی تھی۔ وہ پانچ ستارہ ہوٹل میں بھی اتنے ہی آرام سے رہتے تھے جتنے ایک غریب صحافی کے گھر میں۔ میں اس وقت بہت خوش ہوا جب وہ رانچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر کیے گئے۔ قبائلی طبقہ سے وائس چانسلر بننے والے وہ پہلے شخص نہیں تھے۔ یہ اعزاز شاید ڈاکٹر اے کے دھن کو حاصل ہے جو یو پی ایس سی کے رکن اور ایک قابل شخص تھے۔ لیکن رام دیال منڈا ان سے عمر میں چھوٹے اور زمین سے زیادہ جڑے ہوئے تھے۔

ہم لوگ اس وقت بھی رابطہ میں رہے جب میرے سابق مدیر ایم جے اکبر نے میرا تبادلہ پٹنہ کر دیا۔ رام دیال کو پٹنہ آنا تھا اور انھوں نے مجھ سے ملنا ضروری سمجھا۔ کسی طرح سابق وزیر اعلیٰ بندیشوری دوبے کو پتہ چلا کہ رام دیال منڈا اور میں ایک دوسرے کو جانتے تھے اور کافی قریب تھے۔ ایک دن مجھے بہت حیرانی ہوئی جب انھوں نے بتایا کہ وہ میرے دوست سے کتنے ناراض اور شرمندہ ہیں۔ اس وقت سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی رانچی سے 30 کلو میٹر دور کھونٹی کے دورے پر گئے تھے جہاں معزز لوگوں کا استقبال کرنے والے رقاصوں کی قیادت رام دیال منڈا نے ننگے بدن میں کیا تھا۔ بندیشوری دوبے نے مجھے انفرادی طور پر بتایا کہ وہ شرمندہ ہوئے۔ انھوں نے صدمے جیسی حالت میں کہا ’’تصور کرو، ایک وائس چانسلر، وزیر اعظم کے سامنے ناچ اور گا رہا ہے۔‘‘ مجھے بہت زور سے ہنسی آنے لگی۔ میں نے ان کو بتایا کہ قبائلیوں کے لیے موسیقی زندگی اور جینے کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے اور انھیں رام دیال منڈا پر فخر ہونا چاہیے۔ وہ میری باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔

تقریباً 6 مہینے کے بعد وزیر اعلیٰ نے مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا۔ انھوں نے سابق چیف سکریٹری ارون پاٹھک کو بھی ہمارا ساتھ دینے کے لیے بلایا تھا۔ وہ الگ جھارکھنڈ ریاست کے مطالبہ کے تئیں میری خواہش کو جانتے تھے اور میرے سوچ کے مطالب کو سمجھنا چاہتے تھے۔

کھانے کے دوران پھر سے رام دیال منڈا کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میرے دوست سے وہ کتنا ناراض تھے۔ تلخی سے بھر کر چیختے ہوئے انھوں نے کہا ’’سوچیے ہم انھیں وائس چانسلر مقرر کرتے ہیں اور وہ جا کر اے بی وی پی کی میٹنگ میں شریک ہوتے ہیں۔‘‘

اس شام میں نے رام دیال منڈا کو فون کیا اور وزیر اعلیٰ کی ناراضگی کے بارے میں ان کو بتایا۔ میں نے ان سے زیادہ احتیاط برتنے کی اپیل کی اور انھوں نے میری پوری بات سنی۔ مجھے لگتا تھا کہ یونیورسٹی کو ان کی بہت ضرورت تھی۔ میں نے بڑی معصومیت سے مشورہ دیا کہ انھیں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے حکومت ناراض ہو۔ انھوں نے جو جواب دیا میں اسے کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔ انھوں نے انتہائی اطمینان کے ساتھ مجھ سے کہا ’’مہربانی کر کے وزیر اعلیٰ کو بتا دیجیے کہ میرا ماننا ہے کہ ایک یونیورسٹی صرف اور صرف طلباء کے لیے ہوتی ہے۔ وائس چانسلر ہونے کے ناطے ان میں سے ہر ایک کے لیے میں ذمہ دار ہوں۔ ان میں سے کوئی بھی لڑکا جب کبھی، کہیں بھی، کسی بھی وقت مجھے بلائے گا میں جاؤں گا۔ چاہے وہ اے بی وی پی ہو یا این ایس یو آئی، یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی ۔‘‘

میں نے ان کا جواب کبھی وزیر اعلیٰ تک نہیں پہنچایا۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری بات چیت کے کچھ ہی مہینوں بعد رام دیال منڈا کو وائس چانسلر کے عہدہ سے ہٹا کر محکمہ سربراہ کے طور پر واپس محکمہ میں بھیج دیا گیا تھا۔

کہاں ہیں ایسے وائس چانسلر؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔