گوری لنکیش کا قتل… حق کا خون

Getty Images
Getty Images
user

شاہد صدیقی

مہاتماگاندھی کونتھو رام گوڈ سے نے نہیں قتل کیا تھا۔ گاندھی کو اس سوچ نے قتل کیا تھا‘ جو ان کے نظریات کی مخالف تھی۔اسی طرح آج گوری لنکیش کو کسی ایک فرد نے نہیں‘ بلکہ اس سوچ نے قتل کیا ہے‘ جو ان کی تحریروں‘ ان کے نظریات‘ ان کی سیاست کے خلاف ہے۔ یہ سوچ‘ تنگ نظری اور نفرت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ آج سوال صرف اتنا نہیں ہے کہ کرناٹک کی بہادر‘ ایماندار‘حق گو‘ سیکولرازم کی علمبردار ‘اقلیتوں کے حقوق کی آواز گوری لنکیش کو کس نے قتل کیا‘ بلکہ آج سوال یہ ہے کہ وہ ماحول کون بنارہا ہے‘ جس میں گوری کا قتل ہوتا ہے۔ اس قتل پر ملک بھر میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ گوری کے قتل کو جائز ٹھہرایاجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ایک کتیاکتے کی موت کیا مری‘سارے پلے ایک سُر میں بِلبلا رہے ہیں‘‘۔ملک کے دوسرے سیکولر صحافیوں اور دانشوروں کو دھمکی دی جاتی ہے کہ اب ان کا نمبر ہے۔ ان کا حشر بھی گوری لنکیش جیساہوگا۔ کرناٹک کے ایک بھاجپا ممبر اسمبلی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر گوری لنکیش آر ایس ایس اور ہندوتوا کے خلاف نہ لکھتی‘ تو اس کی موت نہ ہوتی‘‘۔

پہلا قتل نہیں

یہ کسی صحافی یا دانشور کا پہلا قتل نہیں ہے۔ ویسے تو صرف 2015سے 70صحافی قتل کئے جاچکے ہیں‘مگر مہاراشٹر‘ کرناٹک میں 3بہت مقبول اور بڑے دانشوروں کاقتل ایک بہت بڑی اور گہری سازش کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ 21اگست 2013کو مشہور دانشور نریندردابھولکر‘ جو سنگھ پریوار کے خلاف لکھنے کے لئے جانے جاتے تھے‘کو قتل کیاگیا۔ فروری 2015میں مہاراشٹر کے مشہور کمیونسٹ لیڈر گووند پنسارے کو گولی ماری گئی۔ان کی بیوی اوما پنسارے کو بھی سر میں گولی لگی۔ وہ بچ گئیں‘ مگر وہ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئیں۔ 30اگست 2015کو کنڑ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کلبرگی کو گولی ماری گئی۔

تینوں قتل بالکل اسی طرح سرانجام دئیے گئے‘ جس طرح گوری لنکیش کو قتل کیا گیا ہے۔ چاروں قتل چند موٹر سائیکل سوارافراد نے قریب سے گولی مار کر سرانجام دئیے۔ پہلے تینوں قتل میں ثابت ہوچکا ہے کہ انہیں مارنے کے لئے ایک ہی ریوالور کا استعمال کیاگیا۔ مہاراشٹر پولس کے فارنسک ڈیپارٹمنٹ کی تحقیقات کے مطابق تینوں حملوں میں ایک ہی دیسی ہتھیار کا استعمال ہوا ۔ ان سارے قتلوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ چاروں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے کٹر مخالف تھے۔ ان کی تحریروں کے خلاف ہندوو ادکی تنظیمیں آواز بھی اٹھاتی تھیں۔ ان کے خلاف لکھتی بھی تھیں اور دھمکیاں بھی دیتی تھیں۔

ہندو تنظیموں کا ہاتھ

یہ چاروں قتل ایک بڑی اور منظم سازش کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ راہل گاندھی کی طرح ہم نہیں کہتے کہ گوری لنکیش کے قتل کے پیچھے آر ایس ایس کا ہاتھ ہے‘ مگر ہم اتناضرور کہتے ہیں کہ دابھولکر‘پنسارے‘کلبرگی اور گوری لنکیش کے قتل ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ ان کے پیچھے ایک ہی سازش‘ ایک ہی دماغ ‘ایک ہی سوچ اور شاید ایک ہی طرح کے قاتل کام کر رہے ہیں۔

سی بی آئی دابھولکر کے قتل کی جانچ کر رہی ہے‘ مہاراشٹر اسپیشل ٹیم(SIT) پنسارے قتل کی جانچ کر رہی ہے اورکرناٹک سی آئی ڈی کلبرگی کے قتل کی جانچ کررہی ہے‘ جبکہ گوری لنکیش کے قتل کی جانچ کے لئے کرناٹک حکومت نے اسپیشل تحقیقاتی ٹیم(SIT) تشکیل دی ہے۔ مہاراشٹر پولس نے گوا کی ہندوپرست تنظیم سناتن سنستھا کے دولوگ گرفتار کئے ہیں۔ سی بی آئی نے ہندوجاگرن سمیتی کے دیویندر تواڈے کودابھولکر مرڈر میں سازشی قرار دیا ہے۔ سناتن سنستھا کے سارنگ اکولکر اور ونے پوار کو ملزم قرار دیا ہے‘ مگر دونوں فرار ہیں۔ دونوں اب تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ سی بی آئی نے ان کی گرفتاری پر پانچ لاکھ روپے کا انعام رکھا ہے۔

کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک وہ پروفیسر کلبرگی کے قاتلوں کوگرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ کرناٹک سی آئی ڈی کا دعویٰ ہے کہ پروفیسر کلبرگی کاقتل بھی مہاراشٹر کے دونوں قتلوں سے منسلک ہے‘ مگر مہاراشٹر جہاں بھاجپا حکومت ہے‘ پولس سے تعاون نہیں کررہی‘ اس لئے اس کیس میں آگے نہیں بڑھاجاسکا۔ اب یہ شک پختہ ہوگیا ہے کہ جن لوگوں نے پروفیسر کلبرگی کا قتل کیا‘وہی گوری لنکیش کے قاتل بھی ہوسکتے ہیں۔

بڑی سازش

جب یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ چاروں قتل ایک ہی سازش کاحصہ ہیں‘ تو آخر سی بی آئی ان قتلوں کی تحقیقات علیحدہ علیحدہ کیوں کررہی ہے۔ انہیں ایک فرد کا قتل سمجھ کر تحقیقات کیوں کی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے چھپی سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کیوں نہیں ہورہی؟ کیا یہ بھی ا یک بڑی سازش پر پردہ ڈالنے کی سازش ہے؟ بامبے ہائی کورٹ بھی یہ کہہ چکی ہے کہ تینوں مرڈرز کے پیچھے ایک ہی سازش نظرآتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سازش کی تحقیقات کون کرے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج کسی کو سی بی آئی پر بھی اعتماد نہیں رہا اور بجاطور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ سی بی آئی مرکزی حکومت کے اشارے پر کام کرتی ہے۔

اب کس کا نمبر

اگر یہ سازشی بے نقاب نہیں ہوئے ‘ اگر یہ قاتل پکڑے نہیں جاتے‘ تو پھر بہت جلد کسی اور بیباک اور ایماندار صحافی یادانشور کے قتل کی خبر آئے گی۔ ہندوپرست عناصر‘ لیڈر اور یہاں تک کہ بھاجپا کے کچھ لیڈر کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اب ان سب کانمبر ہے‘ جوہندوؤں کے خلاف لکھتے ہیں۔

وکرم آدتیہ رانا نام کے ایک شخص نے فیس بک پر لکھا کہ ’’گوری لنکیش کاقتل ان سب دیش دروہی عناصر کے لئے وارننگ ہے‘ جو صحافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ غداروں کے قتل کی کڑی میں یہ آخری قتل نہیں ہے۔ یعنی شوبھاڈے‘ اروندھتی رائے‘ساگاریکا گھوش‘کویتا کرشنن‘شہلا رشید کے بعد دیش دروہی سیاست دانوں کا نمبر لگناچاہئے۔ ایک ہٹ لسٹ تیار کی جائے اور ان سب کا خاتمہ کیا جائے‘‘۔

اس شخص نے اپنے نشانہ پر تمام ان عورتوں کو لیا ہے‘ جوباہمت ہیں اوردھڑلے سے اپنی بات کہتی ہیں۔ آپ ان کی بات سے متفق ہوں یا نہ ہوں انہیں قتل کرنے کی دھمکی دراصل آزادی صحافت پر حملہ ہے۔یہ حق اور سچائی کے خلاف سازش ہے۔

نظریاتی دہشت گردی

سوشل میڈیا پر ملک کے ان تمام لوگوں کو دھمکیاں دینا کہ جو ہندوکٹرواد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا مذہبی تنگ نظری کے خلاف لکھتے ہیں‘ دراصل ایک طرح کی نظریاتی دہشت گردی ہے۔ اس کا مقصد ملک میں ان تمام لوگوں کو دہشت زدہ کردینا ہے کہ جو فرقہ پرستی اور کٹر پن کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت اور جرأت رکھتے ہیں‘ تاکہ کل جب ا قلیتوں اور سیاسی ونظریاتی مخالفین کے خلاف بڑی کارروائی ہو‘تو آواز اٹھانے والا دنیا کے مظالم سے آگاہ کرنے والا کوئی نہ رہے۔ زیادہ تر میڈیا پہلے ہی حکومت کی گود میں چلا گیا ہے۔ مالکان نے اپنے مفادات کی خاطر حکومت کی چاپلوسی کو وطیرہ بنالیا ہے۔ اب جو بچے کھچے صحافی اور دانشور ہیں‘ انہیں بھی خاموش کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔

میں نے ہمیشہ کہاہے کہ داعش جیسی تنظیمیں انسانیت کے لئے بڑا خطرہ ہیں‘ مگر ان سے بھی بڑا خطرہ وہ سوچ ہے ‘وہ نظریات ہیں‘ جو داعش کو جنم دیتے ہیں اور پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ جب تک اس سوچ کو ختم نہیں کیاجائے گا‘ داعش جیسی تنظیمیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ گوری لنکیش اور دوسرے دانشوروں کے قتل پر بھی میرا کہنا ہے کہ ان کے قاتل جلد سے جلد پکڑے جانے چاہئیں‘ مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جونظریات ان قاتلوں کوجنم دے رہے ہیں اور پال رہے ہیں‘ ان نظریات کو ختم کیا جائے۔ اگر ہمارے وزیراعظم ان افراد کو شہ دیں گے کہ جو صحافیوں کو قتل کرنے اورانہیں’’کتیا‘‘ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں‘ تو پھر اس سوچ پر لگام کیسے لگے گی۔ آج خطرہ صرف ایک گوری لنکیش کو نہیں‘ہر اس شخص کو ہے‘ جو ہندوستان سے محبت کرتا ہے۔ ہندوستان کے آئین اورجمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔ گوری کا قتل سچ کا قتل ہے۔ اس قتل کی پشت پر بیٹھے سازشیوں کو بے نقاب کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ملک کے تمام حق گو عناصر کو متحد ہوکر اس حملہ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔