سماجی فاصلوں کے عہد میں شب برأت... محمد مشتاق تجاروی

شب برأت کے موقع پر ہمارے طرز عمل سے کسی بھی طرح یہ ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ ہم لوگ ذمہ دار نہیں ہیں یا احوال و ظروف کی نزاکتوں کا پورا دھیان نہیں رکھتے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

محمد مشتاق تجاروی

شعبان المعظم کا چاند نظر آتے ہی مسلم محلوں اور گلیوں میں خوشی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ مسجدوں میں چراغاں اور قبرستانوں میں صفائی ہونے لگتی ہے۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں جوش کچھ زیادہ ہی دکھائی دینے لگتا ہے۔ ایسے لوگ جنھوں نے سال بھر کبھی کلمہ زبان سے ادا نہیں کیا اور مسجد کا رخ بھی نہیں کیا، وہ بھی نئی ٹوپی خرید لیتے ہیں اور شب برأت کے روز سرشام ہی نہا دھو کر مسجد میں پہنچ جاتے ہیں۔ نوافل پڑھتے ہیں، قبرستان جاتے ہیں، اگلے دن روزہ رکھتے ہیں اور حلوہ بنا کر خود بھی کھاتے ہیں اور عزیزوں میں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ اب تو ایسے حالات شاید کہیں نہیں ہیں لیکن دلاور فگار نے مسلمانوں کو ایک قسم وہ بھی بیان کی تھی جن کے لیے دین سے رشتہ صرف شب برأت ہی کے توسط سے جڑتا تھا انھوں نے لکھا ہے

اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن

میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں

نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی

شب برأت پٹاخے تو چھوڑ سکتا ہوں


شب برأت کے موقع پر یہ اہتمام، یہ گہما گہمی اور تیوہار کا سا ماحول بے بنیاد نہیں ہے۔ دراصل یہ پورا مہینہ رمضان المبارک کی آمد کا پیش خیمہ ہے۔ رمضان المبارک جس میں اللہ رب العزت نے دنیائے انسانیت پر سب سے بڑا احسان فرمایا، کہ قرآن مجید نازل فرمایا، اس کی آمد کی خبر شعبان لاتا ہے۔ اس لیے اس مہینہ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ معمول تھا کہ اس ماہ مبارک میں عبادات و نوافل کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور بکثرت روزے رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ "اللہ کے نبی شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا پورا مہینہ روزہ رکھتے اور فرماتے تھے کہ "اتنا عمل کرو جتنا تم کر سکتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اکتاتا۔ یہاں تک کہ تم عمل کرنے سے اکتا جاؤ۔" (بخاری)

اس طرح کی روایات کئی اور کتابوں میں بھی آئی ہے۔ فضیلت تو پورے مہینہ کی ہے لیکن خاص 15 شعبان کی رات کی بھی خصوصی فضیلت ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ "حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب شعبان کی درمیانی شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور سبھی کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ سوائے مشرک اور سوائے کینہ پرور کے۔" (صحیح الترغیب و الترہیب)


پورے شعبان المعظم اور خاص پندرہ شعبان المعظم کی رات دونوں کے بارے میں متعدد روایات میں فضیلت آئی ہے۔ اس موقع پر ان کے تذکرہ کی زیادہ ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ عام طور پر ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن جس کا تذکرہ کبھی نہیں ہوتا وہ اس سال کی شب برأت ہے۔ عالمی وبا کے درمیان، سماجی فاصلوں یعنی سوشل ڈسٹنسنگ کی ہدایات کے درمیان یہ مبارک مہینہ آیا ہے۔ ہمارے طرز عمل سے کسی بھی طرح یہ ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ ہم لوگ ذمہ دار نہیں ہیں یا احوال و ظروف کی نزاکتوں کا پورا دھیان نہیں رکھتے۔

شب برأت میں پٹاخے چھوڑنا تو ویسے بھی غلط ہے بلکہ یہ اس کی توہین ہے کہ جب ہمیں عبادت کرنی ہو اس وقت ہم آتش بازی میں لگ جائیں۔ جب ہمیں اپنے رب سے یہ امید ہو کہ ہماری مغفرت ہو جائے گی، اس وقت ہم ایسے کاموں میں لگیں جو فطرت، انسانیت اور مذہب سب سے خلاف ہوں۔ اس لیے پٹاخے تو چلانا ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ موجودہ دور سماجی فاصلوں کے نظام کو پوری سختی کے ساتھ رو بہ عمل لانا ہے۔ شب برأت کی خوشی میں اپنی اور اپنے بھائیوں کی صحت و عافیت کو خطرے میں ڈالنا سنگین غلطی ہوگی۔ اس لیے ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھنا ہے۔ اس وبا کی توسیع کے جتنے ذرائع ہیں، ان سب کی احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں اس شب کا احترام کرنا ہے۔


سماجی فاصلوں کے اس دور نے ہم کو یہ موقع دیا ہے کہ ہم پورے طور پر شب برأت کی روح کے ساتھ اس رات کو منائیں۔ آج نہ کوئی پٹاخہ چھوڑنے والا ہمیں اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے سے روک سکے اور نہ سڑک پر موٹر سائیکل سواروں کی بدمستیاں اور قبرستان میں اگربتی سلگانے والوں کی پھبتیاں ہمارے ذہن و دل کو آلودہ کریں۔ ہم اس رات میں یک سوئی سے عبادت کریں، اپنے رب سے لو لگائیں۔ دن میں روزے رکھیں اور شب کو نوافل کا اہتمام کریں۔ اپنے لیے، اپنے ملک کے لیے اور پوری دنیائے انسانیت کے لیے دعا مانگیں۔ وبا بھی اسی کے حکم سے آتی ہے اور اس کا جب حکم ہوگا تو یہ ختم بھی ہو جائے گی۔ اس سے لو لگائیں، اس وقت پوری دنیا صرف بیماری کے خطرے سے دو چار نہیں ہے بلکہ بھکمری کا بھی خطرہ ہے، بے روزگاری جتنی بڑھے گی اس سے بھی بہت سے خطرات انسانی سماج اور پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بڑھ رہے ہیں۔ اس کی سخت ضرورت ہے کہ لوگ سنجیدہ ہو جائیں، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور شب برأت جیسے مبارک موقع کو اس کے لیے استعمال کریں کہ اپنے رب کے دربار میں عاجزی کے ساتھ دعا کناں ہوں کہ... اے ہمارے رب ہمارے گناہوں، ہماری زیادتیوں کو معاف فرما دے اور اپنے فضل و کرم سے ساری انسانیت پر رحم فرما۔

کتنے ہی بچے اس وقت بھوکے سوتے ہیں کہ ان کے بڑے بے کار ہو گئے ہیں اور کتنے ہی بیمار مصیبت جھیل رہے ہیں کہ علاج کے لیے باہر جانے کے راستے بند ہیں۔ امید ہے کہ اس کی رحمت جوش میں آئے گی اور مصیبت و پریشانیوں کا یہ دور ختم ہوگا اور انسانیت کے گلستان میں پھر بہار مسکرائے گی۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔