ان کا بھی تو کوئی خیال کرے... سید خرم رضا

ہندستانی عوام بالخصوص غریب عوام نے اس بیماری کے خلاف جو جہاد کیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن ہر نئے دن کے ساتھ اب ان کی ہمت جواب د یتی جا رہی ہے

tتصویر سوشل میڈیا
tتصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

21 دن کا لاک ڈاؤن کسی بڑے حادثہ اور واقعہ کے بغیر اختتام پذیر ہوگیا۔ ذرائع ابلاغ نے کوشش بہت کی کہ اس وبا کو کسی طرح فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دے، لیکن بیماری ایسی ہے کہ روز نئی شکل اور نئی قووت کے ساتھ سامنے آ رہی ہے اس لئے جو رنگ چڑھانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کو زیادہ کامیابی نہیں ملی، لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کامیابی نہیں ملی ہے تو آگے بھی نہیں ملے گی، اس لئے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اس طرح کا کوئی موقع عوام میڈیا کو نہ دیں۔ بیماری کی عالمی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے اور قومی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کی مدت میں مزید 19 دن کی توسیع کر دی ہے اور یہ ضروری بھی تھا۔ کورونا سے ابھی تک کی لڑائی میں عوام نے جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔

عوام بالخصوص غریب عوام نے اس بیماری کے خلاف جو جہاد کیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن ہر نئے دن کے ساتھ اب ان کی ہمت جواب د یتی جا رہی ہے، کیونکہ جہاں ان کے گھرمیں روز کا راشن ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان کی جمع پونجی بھی کم ہوتی جا رہی ہے، وہیں اب ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے جو منہ پھاڑے ان کے سامنے کھڑا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ ان کا خرچہ روز کام کرنے سے ہی چلتا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ روز کے کام مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں، اس لئے ان کے سامنے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔


روز کے کام کرنے والوں میں وہ غریب موچی بھی ہے جو سڑکوں کنارے چھاؤں میں بیٹھ کر ہمارے آپ کے جوتوں کی مرمت کرکے اور پولش سے ان کو چمکا کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا تھا وہ اب گھر میں خالی بیٹھا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی گزر بسر کیسے ہو رہی ہے۔ ایسے ہی محلوں میں چھوٹی چھوٹی بال کاٹنے والوں کی دکانیں ہیں جن میں ایک سے تین لوگ کام کرتے ہیں، ان کی بھی روز کی کمائی سے ہی ان کے گھر کا چراغ جلتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی دکانیں بند ہیں اور ان کا حال بھی پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسے ہی بس اسٹاپ اور ٹرین کے پلیٹ فارم پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر جو لوگ اپنے گھر کا چولہا جلاتے تھے ان کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے کہ ان کے بچوں پر کیا گزر رہی ہے۔ رکشہ چلا کر اپنا گھر چلانے والا، گاڑیوں کی صفائی کرکے پیٹ بھرنے والا، آپ کے گھروں پر اخبار پہنچانے والا وغیرہ سب کے حالات ایک جیسے ہی ہیں۔

یہ سماج کے کچھ طبقہ ہیں جن کو فوری مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا گھر روز کی آمدنی سے ہی چلتا ہے۔ حکومت جہاں بہت سارے کام کر رہی ہے وہیں وہ اس ہنگامی وقت میں ایسے لوگوں کا ایک ڈاٹا تیار کرے تاکہ ان کے لئے مستقبل میں کوئی حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ ابھی بہت سارے پیشے ہیں جن پر ہم آئندہ کے مضامین میں روشنی ڈالیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔