گڑگاؤں میں مسلم کی پٹائی نے انسانیت کو کیا شَرمسار، پھر بھی چھائی ہے خاموشی

آئین کی حفاظت کے نام پر اقتدار میں واپسی کا خواب دیکھنے والے لوگ گڑگاؤں میں مسلمانوں کی ظالمانہ پٹائی پر خاموش ہیں جو انسانیت کے لیے نہ صرف خطرناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

پنجابی شاعر پاش نے لکھا تھا...

سب سے خطرناک ہوتا ہے سپنوں کا مر جانا

مردہ شانتی سے بھر جانا

تڑپ کا نہ ہونا، سب سہن کر جانا...

اس دور میں جب کہ پنجاب میں تشدد پسندی عروج پر تھی، پاش جیسے کچھ لوگوں نے انسانیت سے ہمارا یقین اٹھنے نہیں دیا تھا۔ حالانکہ اس کی قیمت پاش کو اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑی۔ تشدد پسندوں نے آج کے ہی دن 23 مارچ 1950 کو گولی مار کر پاش کا قتل کر دیا تھا۔ پاش کا تذکرہ اس لیے کیونکہ اتفاقاً آج 23 مارچ ہے اور آج کے ہی دن سماجواد کا خواب دیکھنے والے، مذہبی کٹرپسندی کے مخالف انقلابی بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔

جس ’مردہ شانتی‘ یعنی موت کی خاموشی کا تذکرہ پاش نے 50 کی دہائی میں کیا تھا اور جو موت کی خاموشی اس وقت صرف پنجاب کے ایک حصے میں پسری ہوئی تھی، وہ آج پورے ملک میں پسری ہوئی ہے۔ ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ راجدھانی دہلی سے ملحق گڑگاؤں میں رہنے والی ایک مسلم فیملی کو ہندووادی غنڈے، جی ہاں نوٹس کیا جائے، ہندووادی غنڈے لاٹھی ڈنڈوں سے انتہائی بربریت کے ساتھ پیٹ رہے ہیں، خواتین اور بچیاں خوف کے مارے چیخ و پکار کر رہی ہیں، لیکن انھیں کوئی بچانے نہیں آیا۔

اس خوفناک منظر کے بارے میں سوچ کر سہم جاتا ہوں کہ کیا پڑوسیوں کو مسلم فیملی کی چیخیں سنائی نہیں پڑی ہوں گی؟ اگر ہاں، تو پھر کوئی مداخلت کرنے کیوں نہیں گیا؟ کیا کسی کے اندر اتنی قوت نہیں بچی ہے کہ کوئی صرف اور صرف انسان ہونے کے ناطے آواز اٹھاتا؟ کچھ نہیں تو کم از کم پولس کو فون تو کیا ہی جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا کسی نے نہیں کیا۔ ظاہر ہے ایک سماج کے طور پر ہم مر چکے ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ ہر دن مرتے جا رہے ہیں۔ ہماری سوچ دن بہ دن کند ہوتی جا رہی ہے۔

اس بات کو الگ سے نشان زد کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم فیملی کے قتل پر آمادہ بھیڑ ہندووادی غنڈوں کی تھی، جس کی نہ صرف پرورش شیڈو نیشنلزم کا نظریہ کر رہی ہے بلکہ سیکورٹی کے لیے ڈھال بھی مہیا کر رہی ہے۔ نہیں تو شاید ایسا نہ ہوتا کہ جان کی بھیک مانگتے اَدھ مرے مسلمانوں کو یہ پٹائی کرنے والے پاکستان جانے کا طعنہ دیتے۔ اس بھیڑ کو پتہ ہے کہ وہ پی ایم مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذریعہ تیار کردہ نیشنلزم کی ڈھال کے پیچھے چھپ کر ہر طرح کی بزدلی، تشدد اور بربریت کو چھپا سکتی ہے۔ اسی لیے نیم مردہ لوگوں کو پاکستان بھیجا جا رہا تھا۔

اس بھیڑ کو یہ بھی پتہ ہے کہ جو انسان اس وقت اقتدار کے عروج پر بیٹھا ہے، وہ اقلیتوں کو ’کتے کا پلّا‘ سمجھتا ہے، اس لیے اگر وہ ’پلّوں‘ کا قتل بھی کر دیتے ہیں تو کوئی روکنے نہیں آئے گا۔ جب ایک ملک کا اکثریتی طبقہ ایسا سوچنے لگے تو جان لیجیے کہ حالات بے حد خطرناک ہو چکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس ملک کا اقلیتی طبقہ اپنا رہنما سمجھتا ہے، وہ سب کے سب مردہ خاموشی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ وقتاً فوقتاً جمہوریت، اقلیتوں کے مفاد، سماج میں بڑھتی کٹرپسندی اور مذہبی تشدد وغیرہ کی باتیں کرنے والے اصل میں سمجھوتہ پرست ہیں۔ زندگی کے جدید قدار، ترقی پسندی کی باتیں، دراصل ان کی منشا نہیں بلکہ مکھوٹا معلوم ہوتی ہیں۔ میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ بربریت کی اس سازش میں وہ سب خاموشی کے ساتھ شامل ہیں جنھوں نے اس وقت خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔

گڑگاؤں میں ہوئی مسلمانوں کی پٹائی پر آئین کی حفاظت کے نام پر اقتدار میں واپسی کا خواب دیکھنے والوں کا خاموش رہنا، انسانیت کے لحاظ سے نہ صرف خطرناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔ بات بات پر ٹوئٹ کرنے والے، فیس بک اور دوسرے میڈیا ذرائع پر دن رات، چوبیسوں گھنٹے سرگرم رہنے والے اپوزیشن کے لیڈران میں سے کیا کسی نے اس ویڈیو کو نہیں دیکھا ہوگا؟ ایسا ناممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ کسی کی زبان سے اس کے خلاف آواز نہیں نکلی۔ کسی نے ناراضگی یا تعزیت کے اظہار میں دو لفظ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ کیا کسی ہندوستانی کے اندر اتنی قوت اور اخلاقیات نہیں بچی کہ وہ کہہ سکے کہ ہم ہندووادی بربریت اور تشدد کے خلاف ہیں، ہم اس ملک کی ان اقلیت اور حاشیے پر کھڑے لوگوں کے ساتھ ہیں جو اکثر آر ایس ایس کی بربریت، پرتشدد نیشنلسٹ نظریہ کے تلے روندے جا رہے ہیں؟ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، لیکن اب بھی موقع ہے۔ مندر-مسجد-گرودوارہ اور چرچ کے چکر لگا کر انتخاب تو جیتے جا سکتے ہیں لیکن کسی ملک کی سیاست نہیں بدلی جا سکتی۔ ہندوؤں کو ووٹ کے لیے ضمیر کا سودا کرنا نہ صرف پارٹی کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی خطرناک ہے۔ جنھیں ابھی لگتا ہے کہ ایک انتخاب جیتنے سے سب کچھ بدل جائے گا وہ یاد رکھیں کہ بے خوف جمہوریت کی بنیاد بزدلانہ سیاست پر نہیں رکھی جا سکتی۔ اس لیے لیڈروں، آپ جتنا زور سے بولیں گے، آپ کو اتنی ہی اونچی آواز واپس سنائی دے گی اور اگر آپ نہیں بولیں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ ایک انتخاب تو جیت جائیں لیکن آپ کی خاموشی سے ملک ہار جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Mar 2019, 6:09 PM