میلہ کھیر بھوانی کی کشش نےہزاروں پنڈتوں کو کشمیر کھینچ لائی

تولہ مولہ میں واقع کھیربھوانی کشمیری پنڈتوں کے لئے ایک مقدس جگہ ہے جہاں رگنیادیوی جو اِن کی ایک مقدس دیوی ہیں، کا مندر ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے مطابق رگنیا دیوی صرف کشمیر میں پوجی جاتی ہیں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

تولہ مولہ (گاندربل) : وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے تولہ مولہ علاقہ میں واقع مشہور ماتا کھیر بھوانی مندر میں سالانہ ’میلہ کھیر بھوانی‘بدھ کے روز انتہائی عقیدت و احترام اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ اس میلے کی کشش اور عقیدت ایک بار پھر ہزاروں پنڈتوں کو کشمیر کھینچ لائی۔

تولہ مولہ میں واقع کھیربھوانی کشمیری پنڈتوں کی ایک مقدس جگہ ہے جہاں پر رگنیادیوی جو اِن کی ایک مقدس دیوی ہیں، کی مندر ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کے مطابق رگنیا دیوی صرف کشمیر میں پوجی جاتی ہے۔ اس مندر میں کشمیری پنڈت ’میلہ کھیر بھوانی‘ کے نام سے مشہور تہوار ہر سال مناتے ہیں۔ میلہ کھیر بھوانی کو کشمیری پنڈتوں کا سب سے بڑا اور اہم تہوار مانا جاتا ہے۔

اس تہوار کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ اب گذشتہ اڑھائی دہائیوں سے اُن کشمیری پنڈتوں کو اپنے مقامی کشمیری مسلمان اور پنڈت بھائیوں سے ملنے کا موقع بھی فراہم کررہا ہے، جو 1990 میں نامساعد حالات کی وجہ سے وادی میں اپنا گھر بارچھوڑ کر ہجرت کرگئے تھے۔ اس تہوار کے موقع پر آج ایک بار پھر جب کشمیری مسلمانوں نے اپنے پنڈت بھائیوں اور پنڈتوں نے اپنی برادری کے دوسرے افراد کے ساتھ برسوں بعد ملاقات کی، تو یہاں انتہائی رقعت آمیز مناظردیکھنے کو ملے اور اکثر و بیشتر کو اپنی پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

تولہ مولہ مندر کے باہر بدھ کو اُس وقت انتہائی جذباتی اور رقعت آمیز ماحول پیدا ہوا جب ایک مقامی مسلمان غلام رسول ڈار اپنے پنڈت دوست آر کے رینہ سے 25 برس کے طویل عرصے کے بعد ملاقی ہوئے۔ جذباتی رینہ جو اس وقت جنوبی بھارت کے شہر بنگلور میں مقیم ہیں، نے بتایا ’میں آج 25 برس بعد کشمیر آیا ہوں۔ میں پچھلی بار 1993 میں یہاں (کشمیر) آیا تھا۔ ہم اپنی جڑوں سے الگ نہیں ہوسکتے‘۔ انہوں نے بتایا ’ میں اور ڈار (غلام رسول ڈار) سوپور میں ایک ہی جگہ رہتے تھے۔ ہم نے اپنا بچپن ایک ساتھ گذارا ہے۔ اگرچہ ہم ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرپاتے تھے لیکن فون پر مسلسل رابطے میں تھے‘۔

غلام رسول نے بتایا کہ رینہ سے ملاقات کرکے میرا ایک دیرینہ خواب پورا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا ’اس ملاقات کا مجھے گذشتہ کئی برسوں سے انتظار تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم آج ایک دوسرے ملے‘۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی ملک کے مختلف حصوں میں رہائش اختیار کرچکے کشمیری پنڈتوں نے ہزاروں کی تعداد میں تولہ مولہ گاندربل آکر میلہ کھیر بھوانی میں شرکت کی۔ انتظامیہ نے اس بار میلے میں شرکت کے خواہشمند عقیدتمندوں کے لئے سرمائی دارالحکومت جموں اور قومی راجدھانی نئی دہلی سے تولہ مولہ تک ٹرانسپورٹ کے مناسب انتظامات کئے تھے۔ اس کے علاوہ مندر کے اندر اور باہر بھی عقیدتمندوں کے لئے معقول انتظامات کئے گئے تھے۔

راج کول نامی ایک کشمیری پنڈت نے کہا کہ یہ میلہ تین دہائی قبل ایک دوسرے سے جدا ہونے والے پنڈتوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا ’کشمیری (پنڈت ) سماج ہزاروں سالوں سے رگنیادیوی کی پوجا کرتا آیا ہے۔ آج کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے ہزاروں پنڈت یہاں اکھٹے ہوئے ہیں۔ یہ میلہ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم کرتا ہے‘۔

ایک مہاجر کشمیری پنڈت خاتون شالنی نے کہا کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر کشمیر کی صورتحال کو انتہائی منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا ’ٹیلی ویژن چینل دیکھنے کے بعد کشمیر جانے کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن یہاں ہمیں وہ صورتحال نظر نہیں آئی جس کو ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔ ہمیں جموں سے تولہ مولہ تک سفر کے دوران کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘۔ انہوں نے مزید بتایا ’یہاں پہنچنے پر مسلمان کیمونٹی سے وابستہ لوگوں نے ہمارا شاندار استقبال کیا‘۔ ایک اور عقیدتمند خاتون نے کہا ’میں گذشتہ چار برسوں سے مسلسل یہاں آرہی ہوں۔ یہاں کے لوگ انتہائی ملنسار ہیں۔ میں یہاں اس میلے پر آئند بھی آتی رہوں گی۔ ہر ایک سماج میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے لوگ بھی ہوتے ہیں‘۔

راہل پنڈتا نامی ایک کشمیری پنڈت نے انتظامیہ کی طرف سے کئے گئے انتظامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’میں یہاں ہر سال آتا ہوں۔ خاص طور پر اس میلے پر۔ ہم نے آج یہاں کشمیر میں امن کے لئے دعا کی۔ ہم نے دعا کی کہ یہاں وہی امن امن و شانتی اور بھائی چارہ بحال ہو، جس کے لئے یہ جگہ جانی جاتی تھی۔ یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے۔ ہمیں کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ یہاں انتظامیہ کی طرف سے انتظامات بھی بہت اچھے کئے گئے ہیں۔ ہمیں اب اپنے گھروں کو واپس آنا چاہیے‘۔

میلہ کھیر بھوانی کے منتظمین کے مطابق ہزاروں کشمیری پنڈتوں نے اس پوتر مندر میں رات بھر جاری رہنے والی پوجاپاٹ اور ہون کی خصوصی محفلوں میں شرکت کی۔ میلہ کھیر بھوانی کے اس تہوار کی سب سے خاص بات یہ بھی ہے کہ اس تہوار کے دوران کشمیر کے آپسی بھائے چارے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور کشمیریت کی زندہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تہوار کے دوران نہ صرف کشمیری مسلمان اپنے پنڈت بھائیوں کو ضرورت کی ہر ایک چیز مہیا کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنے گھروں میں دعوت پر بلاتے ہیں۔

ایک مقامی کشمیری پنڈت نے بتایا کہ مقامی مسلمان پنڈتوں کے اِس سب سے اہم تہوارکو مناتے کے طریقے سے بخوبی واقف ہیں اور وہ تہوار کے موقع پر ہمیں پوجا کے لئے درکار ہر ایک چیز بشمول پھول اور دودھ مہیا کرتے ہیں۔ ایک مقامی مسلمان جس کی مندر کے باہر دکان چل رہی ہے، نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے یہاں درشن کے لئے آنے والے پنڈت عقیدتمندوں کو خدمات فراہم کررہا ہے۔

انہوں نے بتایا ’بدقسمتی سے نوے کی دہائی میں حالات نے کروٹ بدلی اور اس مندر کی درشن کے لئے آنے والے عقیدتمندوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ تاہم مجھے خوشی ہے کہ گذشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران یہاں آنے والے پنڈتوں کی تعداد میں ایک غیرمعمولی اضافہ درج کیا گیا‘۔ تولہ مولہ کے مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ میلہ کھیر بھوانی کے دوران نان ویجی ٹیرین کھانا ترک کرتے ہیں۔ کھیر بھوانی مندر کے آس پاس گوشت کی کوئی دکان قائم نہیں کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے ’ہر سال اس تہوار کے موقعے پر ہم اپنے پنڈت بھائیوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ ہم اُن کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ کشمیر پنڈتوں کے بغیر نامکمل ہے‘۔

مورخین کے مطابق کھیر بھوانی کی مندر کو 1912 میں مہاراجہ پرتاب سنگھ نے تعمیر کیا تھا۔ کھیربھوانی کے اس مقدس مندر کے مقام پر ایک چشمہ ہے ، جو پنڈتوں کے مطابق ہر سال اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے اور کشمیر کے لئے اگلے سال کیسا ہوگا، کی رنگ کے ذریعے پیشن گوئی کرتا ہے۔اس مندر کے پادری کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانی روایت ہے اور رنگ بدلنے کی پیشن گوئی ہمیشہ سچ ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وادی میں ستمبر 2014 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے قبل چشمے کا پانی سیاہ رنگ میں تبدیل ہوا تھا۔

مندر کے پادری نے بتایا کہ وادی میں مسلح تحریک شروع ہونے اور کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے باوجود اس مندر کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ تولہ مولہ کے مسلمان ہمیشہ اِس مندر میں پوجا کرانے میں معاون ثابت ہوئے اور وہ یہاں منعقد ہونے والے سالانہ میلہ کے دوران عقیدتمندوں کو پھول، دودھ اور دیگر چیزیں مہیا کرتے ہیں۔ پادری نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں سے کشمیری پنڈت اچھی تعداد میں سال بھر بالخصوص موسم گرما میں اس مندر کی درشن کو آتے ہیں اور یہاں اجتماعی اور انفرادی طور پر ہون اور پوجا کا اہتمام کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ صوبہ جموں اور نئی دہلی کے مختلف علاقوں اور پنڈت کیموں میں مقیم کشمیری پنڈتوں کو تولہ مولہ پہنچانے کے لئے اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے اپنی بسیں کام پر لگادی تھیں۔ مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں اور سرکاری محکموں نے تولہ مولہ میں پنڈت عقیدتمندوں کے لئے مفت لنگر ، پانی اور طبی کیمپ لگائے ہیں۔

مندر کے منتظمین نے بتایا کہ میلے کے سلسلے میں پوجات پاٹ کی تقریبات اگلے کچھ دن تک جاری رہیں گی۔

نوے کی دہائی میں وادی میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد بیشتر کشمیری پنڈتوں نے ہندوستان کے مختلف ریاستوں اور شہروں کی طرف ہجرت کی تھی اور چند سو کشمیری پنڈتوں نے ہی وادی میں ٹھہرنے کو ترجیح دی تھی۔ تاہم گذشتہ قریب ایک دہائی سے مہاجر کشمیری پنڈتوں کی میلہ کھیر بھوانی کے تہوار میں شرکت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

ایک کشمیری پنڈت سمیر بھٹ نے ایک مستند کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ماتا رگنا دیوی اصل میں سری لنکا کی رہنے والی تھیں جہاں راون انہیں اپنی دیوی مانتا تھا اور اِن کی پوجا کرتا تھا۔ تاہم جب سری لنکا میں رام جی اور راون کے درمیان جنگ ہوئی اور ماتا رگنا دیوی کو محسوس ہوا کہ راون حق پر نہیں ہے تو انہوں نے رام جی سے کہا کہ وہ اپنی پسندیدہ جگہ جانا چاہتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد رام جی نے ہنومان جی کو حکم دیا کہ وہ ماتا رگنیا دیوی کو وہاں پہنچائیں جہاں وہ جانا چاہتی ہیں۔ سمیر بھٹ نے بتایا کہ اس کے بعد ہنومان جی نے ماتا رگنیا دیوی کو اپنی پسندیدہ جگہ یعنی کشمیر پہنچایا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔