عالمی سطح پر 2023 گرم ترین سال، اکتوبر سب سے زیادہ گرم مہینہ

اکتوبر عالمی سطح پر سب سے زیادہ گرم رہا۔گرم سیارے کا مطلب ہے شدید موسم اور شدید واقعات جیسے خشک سالی یا سمندری طوفان۔ ہم ایک ایسے موسمیاتی نظام میں جا رہے ہیں جس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں پر اثر پڑے گا

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

مدیحہ فصیح

اکتوبر کا ریکارڈ درجہ حرارت اس بات کی ضمانت ہے کہ 2023 گرم ترین سال ہو گا۔ صنعتی دور سے پہلے اس مہینے کے اوسط سے موازنہ کریں تو یہ 1.7 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم رہا اور مسلسل پانچواں مہینہ جس کی بنا پر 2023 کو یقینی طور پر اب تک کا گرم ترین سال ریکارڈ کیا گیا۔

اس سال اکتوبر کا مہینہ 2019 کے پچھلے ریکارڈ کے مقابلے میں 0.4 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹس کے مطابق یورپی موسمیاتی ایجنسی ،کلائمیٹ چینج سروس، جو عالمی سطح کی ہوا ،سمندری درجہ حرارت اور دیگر اعداد و شمار کا مشاہدہ شائع کرتی ہے، کی ڈپٹی ڈائریکٹر سمانتھا برجیس نے کہا ہےکہ جس حساب سے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں وہ حیران کن ہے۔ پچھلے کئی مہینوں کی مجموعی حدت کے بعد، اس بات کو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ 2023 گرم ترین سال ریکارڈ ہوگا۔


سائنس دان آب و ہوا کے متغیرات کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ ہمارا سیارہ انسانی پیدا کردہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں کیسے تیار ہو رہا ہے۔ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں گلوبل فیوچر لیبارٹری کے نائب صدر پیٹر شلوسر کے مطابق گرم سیارے کا مطلب ہے شدید موسم اور شدید واقعات جیسے خشک سالی یا سمندری طوفان جن میں زیادہ پانی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، یہ ایک واضح نشانی ہے کہ ہم ایک ایسے موسمیاتی نظام میں جا رہے ہیں جس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں پر اثر پڑے گا۔ہمیں اس انتباہ کو بہتر طور پر لینا چاہیے بلکہ حقیقت میں ہمیں 50 سال پہلے لینا چاہیے تھا اور صحیح نتیجہ اخذ کرنا چاہیے تھا۔

یہ سال غیر معمولی طور پر بہت گرم رہا ہے کیونکہ سمندر گرم ہو رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے میں کمزور پڑرہے ہیں۔ برجیس کے مطابق ،تاریخی طور پر سمندر نے موسمیاتی تبدیلی سے 90 فیصد اضافی گرمی جذب کر لی ہےلیکن ’ال نینو‘ کے سبب آنے والے مہینوں میں مزید گرمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ال نینو قدرتی آب و ہوا کا ایک ایساچکر ہےجو سمندر کے کچھ حصوں کو عارضی طور پر گرم کرتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں کو چلاتا ہے۔شلوسر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کو اس حدت کے نتیجے میں مزید ریکارڈ ٹوٹنے کی توقع کرنی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چھوٹے قدم آگے بڑھیں گے۔ زمین پر درجہ حرارت پہلے ہی صنعتی دور سے پہلے کے مقابلہ 1.5 ڈگری سیلسیس سے بڑھ رہا ہے جسے پیرس معاہدے کے مقاصد کے تحت محدود کرنا تھا۔ دوسرے یہ کہ زمین نے ابھی تک اس حدت کا مکمل اثر نہیں دیکھا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارے کوگرم کرنے والے اخراج کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔


اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس نے 20 ستمبر کو منعقد ہوئے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں ’جہنم کے دروازے‘ سے خبردار کیا، لیکن کاربن آلودگی پھیلانے والے ممالک خاموش رہے۔ اعلیٰ بین الاقوامی عہدیداروں نے کہا کہ دنیا کے رہنما اب بھی گرمی بڑھانےوالی گیسوں کی آلودگی کو روکنے کے لیے کافی کام نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اخراج کرنے والی بڑی قوموں سے مزید کام کرنے کی التجا کی۔ لیکن وہ قومیں خاموش رہیں۔ انہیں بولنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ منتظمین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی نیا اقدام نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے صرف ان ممالک کوبلایا تھاجنہوں نے اپنی کوششوں پر زور دیا ہے، اور یہ ممالک دنیا کی سالانہ کاربن آلودگی کے صرف نویں حصے کے ذمہ دار ہیں۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے آب و ہوا کے عزائم پرخصوصی سربراہی اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت نے جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں، گرمی کے خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پریشان کسان سیلاب کی زد میں آنے والی فصلوں کو بہتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بیماری کو جنم دیتا ہے اور ہزاروں لوگ تاریخی بھڑکتی آگ کے خوف سے بھاگ رہے ہیں۔


اس سربراہی اجلاس میں صرف ان عالمی رہنماؤں کو بلایا گیا تھا جو نئے ٹھوس اقدامات کے ساتھ آئے لیکن ان ممالک کے رہنماؤں نے جو خود سب سے زیادہ گرمی پیدا کرنے والی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں انہوں نے پوچھنا بھی گوارا نہیں سمجھا۔ چین، امریکہ ، ہندوستان، روس، برطانیہ اور فرانس کے سربراہان مملکت نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ امریکہ، جس نے کئی دہائیوں کے دوران فضا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کیا ہے، اپنے آب و ہوا کے ایلچی جان کیری کو سربراہی اجلاس میں بھیجا تھا لیکن کیری کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اس کے برعکس امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم کو بات کرنے اور ان کی ریاست کی کوششوں کو بیان کرنے کی اجزت دی گئی۔علاوہ ازیں یورپی کمیشن کے صدر کو بھی بولنے کی اجازت دی گئی۔ 32 قومی رہنما جنہوں نے کوالیفائی کیا وہ دنیا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ آلودگی کے صرف 11 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چین اور امریکہ دونوں ان 32 ممالک سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔


اگرچہ 2015 میں دنیا نے صنعتی دور سے پہلے سے گرمی کو 1.5 ڈگری سیلسیس (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) تک محدود کرنے کا ہدف اپنایا تھا، اس کے بجائے زمین 2.8 ڈگری سیلسیس (5 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچنے کی راہ پر گامزن ہے – 19ویں صدی کے وسط سے اب تک دنیا پہلے ہی کم از کم 1.1 ڈگری سیلسیس گرم کر چکی ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ گٹیرس نے ایک خطرناک اور غیر مستحکم دنیا سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی مستقبل طے نہیں ہے۔ یہ دنیا کےلیڈروں پر منحصر ہے کہ وہ اس کا تعین کریں۔ انہوں نے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک ، جنہوں نے حیاتیاتی یا فوسل ایندھن سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے ، سے اخراج کو کم کرنے کے لئے اضافی کوششیں کرنے اور دولت مند ممالک سے اس ضمن میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کی مدد کرنے پر زور دیا۔لیکن وہ سب ممالک خاموش ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔