اے ایم یو کے پروفیسر ریحان علوی کا دیوبند کا دورہ، ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے میں شمسی توانائی کی اہمیت کی بیان

پروفیسر ریحان نے کہا کہ ہزارہا سال سے سورج کی تپش سے موسم کے مزاج کا اندازہ لگایا جاتا تھا لیکن اب اسی گرمی کو انرجی میں تبدیل کر کے سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی گاؤں اور شہروں کو روشن کیا جا رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>پروفیسر ریحان علوی کتاب پیش کرتے ہوئے / عارف عثمانی</p></div>

پروفیسر ریحان علوی کتاب پیش کرتے ہوئے / عارف عثمانی

user

عارف عثمانی

دیوبند: ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے میں شمسی توانائی مدد گار ہے۔ جس تیزی سے ہمارے ماحولیات میں تبدیلی آرہی ہے اور کرہئ ارض گرم ہوتا جارہاہے، زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، یہ بات نہ صرف سائنس دانوں کے لئے بلکہ ایک باشعور اور سمجھ دار انسان کے لئے تشویش کا باعث ہے اور اس کے حل کے لئے ہر کوئی فکر مند نظر آ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذاکر حسین انجینئرگ کالج کے پروفیسر اور الیکٹرک سٹی کمیٹی کے ممبرانچارج پروفیسر ریحان علوی نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کئے۔

انہوں نے کہا کہ بڑھتا درجہ حرارت نہ صرف ہمارے ماحولیات کو ڈسٹرب کررہا ہے بلکہ پینے کے صاف پانی کے ذخائر جنہیں گلیشیر کہا جاتا ہے انہیں بھی پگھلا رہا ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہ بھی ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی بہت سے ممالک میں پینے کے صاف پانی کی قلت نمایاں ہیں اور مستقبل میں یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔ پروفیسر ریحان علوی نے کہا کہ دوسری جانب یہ صاف پانی پگھل کر سمندروں میں گر رہا ہے جس سے سمندروں کی آبی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس وجہ سے سمندروں کے قریب بہت سی آبادیوں کے غرقاب ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اسی بات کے مدنظر شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


انہوں نے کہا کہ ہزارہا سال سے سورج کی تپش سے موسم کے مزاج کا اندازہ لگایا جاتا تھا، لیکن اب اسی گرمی کو انرجی کی شکل میں تبدیل کرکے سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی گاؤں اور شہروں کو روشن کیا جا رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ریحان علوی نے اسی سلسلہ میں دیوبند کا دورہ کیا اور مختلف تعلیمی اداروں کے ذمہ داران سے ملاقات کی، جس میں خاص طو رپر جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر مولانا سید اسجد مدنی سے بھی طویل گفتگو کی۔

انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بجلی کی کل کھپت کا ایک تہائی حصہ ہم شمسی توانائی سے پورا کررہے ہیں اور مستقبل قریب اس میں مزید اضافہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہزار ہا سال سے سورج کی توانائی یوں ہی ضائع ہورہی تھی اور عوام سمجھ رہے تھے کہ سورج کا کام صرف دن کو روشن کرنا اور زمین کی گردش کرنا ہے، لیکن اب سائنسی شعور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سورج کی تپش سے بڑے بڑے صنعتی ادارے چلائے جاسکتے ہیں، شہر کے شہر روشن کئے جا سکتے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ اس زمین پر بڑھ رہے درجہ حرارت کو اسی کے ذریعہ کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور ماحول کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم ایک صاف ستھرا ماحول اور صحت مند فضا دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ عہد حاضر کے سائنس داں سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے تجربات میں مصروف ہیں اور کافی حد تک انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے، ہوا کی طاقت کا استعمال دنیا کے کچھ ممالک نے آٹے کی چکیوں کو چلاکر کیا ہے، بہتے ہوئے پانی کو باندھ کے ذریعہ روک کر بہت اونچائی سے گراکر بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اگر سائنسی ترقی اسی رفتار سے ہوتی رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب سورج کی توانائی سے طاقت حاصل کرکے ہر وہ کام کیا جائے گا جو آج قدرتی تیل سے ہورہاہے اور جس کے ذخائر محدود ہیں۔ شمسی توانائی کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی ہے۔ واضح ہو کہ پروفیسر ریحان علوی نے اسی موضوع پر ایک زخیم کتاب مرتب کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔