انتظار حسین کا مختصر افسانہ ’لمباقصہ‘

انتظار حسین نے ناول نگاری اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جادو سے لوگوں کو خوب مسحور کیا اور خصوصاً تقسیم ہند کے بعد ہجرت کی تکلیف، ماضی کے درد اور دورِ جدید کے مسائل جیسے واقعات کو موضوع بنایا۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

قومی آوازبیورو

گزشتہ 2 فروری کو اُردو کے افسانوی ادب میں اپنے مخصوص لہجے اور اسلوب کی بنا پر پہچان قائم کرنے والے انتظار حسین کی دوسری برسی تھی۔ حکومت فرانس کے ذریعہ 2014 میں ’آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز‘ کے اعزاز سے نوازے گئے انتظار حسین کی پیدائش 7 دسمبر 1923 کو ہندوستان کے میرٹھ میں ہوئی لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے گئے۔ ناول نگاری اور افسانہ نگاری میں انھوں نے اپنے قلم کے جادو سے لوگوں کو خوب مسحور کیا، خصوصاً تقسیم ہند کے بعد ہجرت کی تکلیف، ماضی کے درد اور دورِ جدید کے مسائل جیسے واقعات کو موضوع بنا کر انھوں نے ’آخری آدمی‘، ’کچھوے‘، ’شہر افسوس‘جیسے افسانے لکھے۔ ’چاند گہن‘ اور ’بستی‘ جیسے ناول نے بھی انتظار حسین کو شہرت دوام عطا کی۔ آج ہم ’قومی آواز‘کے قارئین کے لیے ان کا مختصر افسانہ ’لمبا قصہ‘ پیش کر رہے ہیں جو ان کی تحریروں میں موجود سادگی اور منفرد لب و لہجہ کی عکاس ہے۔

لمبا قصّہ

اس نے مجھے حیران ہو کر دیکھا اور ’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘

میں نے کہا’’ بس ہمیں پتہ چل گیا ، بتاؤ وہ قصّہ کیا ہے؟‘‘

کہنے لگا’’یار اصل میں وہ تھی میری کلاس فیلو، ہم دونوں نے ایک ہی سبجیکٹس لے رکھے تھے اور بات یہاں سے شروع ہوئی....‘‘ کہتے کہتے رکا جیسے اسے بہت سی باتیں ایک دم سے یاد آگئی ہوں ۔’’یار تم نے مجھے چھیڑ دیا۔ قصّہ لمبا ہے۔ تم بور ہو جاؤ گے۔‘‘

’’نہیں‘‘۔میں نے سادگی سے کہا’’تم سناؤ‘‘

اس نے پھریری لی، مگر بات اور شروع کرنے لگا کہ افتخار اور مظفر آگئے۔ ان کے ساتھ کئی ایک یار اور آگئے۔ مجھ سے آہستہ سے بولا’’یہاں بات نہیں ہوسکتی کبھی الگ بیٹھیں گے تو سنائیں گے‘‘۔

پھر افتخار ون یونٹ کا ذکر لے بیٹھا ۔ مظفر بولا’’ون یونٹ کو ٹوٹنا ہی تھا۔‘‘

’’کیوں ٹوٹنا تھا؟‘‘ افتخار نے غصّے سے کہا۔

اس نے افتخار اورمظفر دونوں کو پیچھے دھکیلا اور ون یونٹ کے مسئلہ کا تفصیلی تجزیہ کر ڈالا۔ بات کہاں سے چلی کہاں تک پہنچی ، روس تک ، پھر امریکہ تک ،پھر ویت نام تک ، پھر چین تک اور اب شام ہونے لگی تھی، افتخار اور مظفر کسمسائے۔میں اکھڑ چلا تھا ۔ مگر اس نے کہا ’’میرا فقرہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے‘‘۔

اس کا فقرہ آج کیا کبھی پورا ہوتے نہیں دیکھا گیا۔اب یہ روز کا معمول تھا کہ ڈیڑھ دو بجے تک ہم اپنے اپنے دفتروں سے نبٹ نبٹا کر یا جان چرا کر اس ریستوران میں آبیٹھتے ۔ یہ جاڑوں کے دن تھے اور اس ریستوران میں ایک اچھا بھلا لان تھا۔ ہم یہیں بیٹھ کر چائے پیتے تھے، دھوپ سینکتے تھے اور سیاست پر باتیں کرتے تھے۔

میں نے کئی بار افتخار اور مظفر کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر وہ ذکر چھیڑا۔اس نے ہر بار ایک پھریری لی۔ بات شروع کی ’’ہوا یوں کہ .....‘‘ اور اتنے میں افتخار اور مظفر آن پہنچے ، بات بیچ کی بیچ میں رہ گئی اور ہمیشہ اس پر ٹلاکہ قصّہ لمبا ہے۔ فرصت سے الگ بیٹھیں گے تو بات کریں گے۔

کئی بار اس نے بیزار ہو کر کہا ’’یار کیا مصیبت ہے، ہم کوئی ذاتی بات کر ہی نہیں سکتے ۔ افتخار اور مظفر ایک پوری پلٹن لے کر آجاتے ہیں۔ روز وہی سیاست روز وہی باتیں ۔‘‘ روز یہی ہوتا کہ وہ خود بحث میں شامل ہو جاتا۔ بولتا چلا جاتا، یہاں تک کہ شام ہو جاتی ۔ ہم کہتےکہ چلنا چاہیے ۔ وہ کہتا کہ ’’ابھی میرا فقرہ پورا نہیں ہوا ہے‘‘۔

ایک دوپہر وہ خوش خوش آیا’’لو یار آج ہم نے ان کا پتہ کاٹ دیا۔ وہ پوری پلٹن اسٹیڈیم گئی ہے میچ دیکھنے‘‘۔

’’گڈ‘‘ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

بولا ’’اچھا تمہیں بھی اپنا قصّہ سنا نا پڑے گا‘‘۔

’’مجھے؟‘‘ میں نے سٹپٹا کر کہا۔

’’ہاں تمہیں‘‘

’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘

’’بس جیسے تم نے میرے قصّے کو سونگھا ویسے میں نے بھی تمہارے قصّہ کو سونگھ لیا‘‘۔

’’یار ہمارا قصّہ تو پرانی بات ہوئی ‘‘۔

’’کوئی ہرج نہیں‘‘۔ وہ بولا’’اپنا قصّہ بھی اب پرانا ہو چلا ہے‘‘۔

میں نے کہا ’’اچھا چائے منگاتے ہیں ‘‘۔

چائے کا آرڈر دیا۔ میچ کا اسکور بیرے سے پوچھا۔ ایک ٹیلی فون آگیا۔ اسے جاکر سنا۔ چائے آگئی۔ میں نے اس کے لئے بنائی ۔ اپنے لئے بنائی۔

’’اچھا اب سناؤ ‘‘۔

معذرت کے لہجہ میں بولا’’یار داستان لمبی ہے‘‘۔

’’کوئی ہرج نہیں ، سناؤ‘‘۔

’’اچھا‘‘۔ اس نے چائے کا ایک گھونٹ لیا۔ پھر کچھ سوچنے لگا۔اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوتی جارہی تھی۔ جیسے باتیں یاد آرہی ہوں ۔

باتیں یاد آتی چلی جارہی تھیں اور آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی چلی جارہی تھی۔

میں اسے تکتا رہا اور اب مجھے بھولی بسری باتیں یاد آرہی تھیں ۔ کوئی اس کا پیارا سا بول کو ئی اپنی تلخ سی باتیں ۔ کوئی یہاں سے کوئی وہاں سے ۔ سو میں بھی خیالوں میں کھو گیا۔

ہم چپ چاپ بیٹھے تھے اور دھوپ ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔جاڑوں کی دھوپ عجب ہوتی ہے۔ شروع میں اس سے طبیعت ہشاس بشاش ہوتی ہے زیادہ دیر بیٹھو تو یہی دھوپ آدمی کو اداس کر دیتی ہے۔ شاید اداسی جاڑے کی دھوپ کے ساتھ اترتی ہےاور سانسوں میں دھوپ کے رچنے کے ساتھ رچتی چلی جاتی ہے۔ دھوپ میں میری آنکھیں پہلے مند سی گئیں ۔پھر کچھ اونگھ سی آگئی۔ کچھ یادیں کچھ نیند ۔ کئی مرتبہ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ اسی طرح گم سم بیٹھا تھا۔ میں پھر یادوں اور نیند کی ملی جلی کیفیت میں کھو گیا۔

آخر میں نے جھرجھری لی۔ چاروں طرف دیکھا ۔ دھوپ ڈھلنے لگی تھی اور چھاؤں سرکتے سرکتے ہماری میز کے پاس آگئی تھی۔ میں نے اُسے ٹہوکا’’یار تم تو بالکل ہی چپ ہوگئے‘‘۔

اُس نے مندی ہوئی آنکھیں کھولیں کئی بار جھپکائیں پھر افسردہ لہجہ میں بولا۔ ’’ہاں یار‘‘ پھر پہلو بدلا، جمائی لی ۔ پھر ایک لمبی انگڑائی لی جیسے خیالوں ہی خیالوں میں بہت دور نکل گیا اور اب واپس آنے کی کاشش کر رہا ہو’’ یار چائے تو بالکل ٹھنڈی ہوگئی‘‘۔

میں نے بیرے کو بلایا ۔ نئی چائے منگائی ۔بنائی۔پیتے پیتے وہ بولا۔’’تم بھی کچھ کہو‘‘۔

’’ہاں تم‘‘۔

’’کیا کہیں یار‘‘

’’ہاں یار کیا کہیں‘‘ وہ افسردگی سے بولا۔

پھر ہم دونوں خاموش ہوگئے اور چائے پیتے رہے۔پھر میں بولا ’’دھوپ میں چٹخنی آگئی ہے، موسم بدل گیا‘‘۔

’’ہاں موسم بدل ہی گیا‘‘۔ اس نے جواب دیا ۔

ہم پھر چپ تھے ۔ چھاؤں سرکتے سرکتے میز پر اور میز سے ہمارے سروں پر آگئی تھی۔ وہ بولا’’اب چلیں ‘‘۔

’’ہاں چلنا ہی چاہئے‘‘۔

ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور چل پڑے۔ چلتے چلتے وہ بولا ’’کیا خیال ہے تمہارا ون یونٹ ٹوٹنا چاہیے تھا یا نہیں ٹوٹنا چاہیے تھا ‘‘۔

میں الجھ سا گیا’’ پتہ نہیں یار ٹوٹنا چاہیے تھا یا نہیں ٹوٹنا چاہیے تھا‘‘۔

وہ تھوڑی دیر چپ چلتا رہا۔ پھربولا’’ ہاں یار پتہ نہیں‘‘۔

پھر ہم چپ چپ چلنے لگے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Feb 2018, 10:04 PM
/* */