ڈاکٹر شمس کمال انجم کو استقبالیہ اور ایک ادبی تنظیم کا قیام

اردو کی بقا کے لیے ہم سب کو مل کر جد و جہد کرنی چاہیے: پروفیسر خالد محمود

کیپشن: دائیں سے درد دہلوی، پروفیسر خادل محمود، ڈاکٹر شمس کمال انجم، سید منصور آغا، ڈاکٹر سید احمد خاں، ڈاکٹر شبیر احمد اور سہیل انجم
کیپشن: دائیں سے درد دہلوی، پروفیسر خادل محمود، ڈاکٹر شمس کمال انجم، سید منصور آغا، ڈاکٹر سید احمد خاں، ڈاکٹر شبیر احمد اور سہیل انجم
user

پریس ریلیز

نئی دہلی۔ ادبی و ثقافتی تنظیم ’’بارگاہ سخن‘‘ دہلی کے زیر اہتمام ذاکر نگر نئی دہلی میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں ڈاکٹر شمس کمال انجم، صدر شعبہ عربی و اردو، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں کو یونیورسٹی کا پہلا باوقار محقق ایوارڈ ملنے پر انھیں استقبالیہ دیا گیا اور ان کی علمی، ادبی و شعری خدمات کی پذیرائی کی گئی۔ سابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ و سابق وائس چیئرمین دہلی اردو اکادمی پروفیسر خالد محمود، مہمان خصوصی سینئر صحافی سید منصور آغا، مہمان مکرم اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ ڈاکٹر سید احمد خاں اور سینئر صحافی سہیل انجم نے ڈاکٹر شمس کمال انجم کو گلدستے پیش کرکے اور شال اوڑھا کر ان کا استقبال کیا۔

پروفیسر خالد محمود نے اپنی صدارتی تقریر میں شمس کمال انجم کی علمی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے عربی کے اسکالر ہونے کے باوجود اردو کی جو خدمت کی ہے اور کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ اب تک ان کی بیس سے زائد کتابیں شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ جن میں عربی ادب سے متعلق کئی کتابیں کورس میں شامل ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ہم سب لوگوں کو اردو کی بقا کے لیے مل کر جد و جہد کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہم اردو کے خادم نہیں بلکہ اردو ہماری خادم ہے۔ اس کا تحفظ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ سید منصور آغا نے صاحب اعزاز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم لوگوں کو اپنے کردار سے لوگوں کے دل جیتنے چاہئیں۔ آج جس قسم کا ماحول ہے اس میں اس کی بے حد ضرورت ہے۔ مہمان ذی وقار اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں استاد ڈاکٹر کوثر مظہری نے ڈاکٹر شمس کمال انجم سے اپنے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے گفتگو کی اور ان کی شخصیت ، ان کے کلام اور ان کی تصنیفات میں انسانی قدروں کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کا پورا خانوادہ علمی، ادبی و صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ایسی مثالیں کم ملتی ہیں۔ ڈاکٹر سید احمد خاں نے بتایا کہ ڈاکٹر شمس کمال انجم کی پہلی کتاب ’’جدید عربی ادب‘‘ کا اجرا اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے بینر سے ہوا تھا اور آج ایک بار پھر ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والے پروگرام میں شرکت اور ان کی کامیابیوں پر مسرت ہو رہی ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اسی طرح اردو کی خدمت کرتے رہیں گے۔

اس موقع پر ملک کے مایہ ناز عالم دین، خطیب، مقرر، شاعر، صحافی، قلمکار اور مصلح مولانا حامد الانصاری انجم کے نام پر ’’مولانا انجم لٹریری فورم‘‘ کے نام سے ایک علمی و ادبی و تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس کا اعلان کرتے ہوئے سہیل انجم نے بتایا کہ اس کے تحت علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے، نئے علمی ادبی و صحافتی موضوعات پر کتابوں کی اشاعت، علمی سمیناروں کے انعقاد اور نئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کی کوشش کی جائے گی تاکہ اردو زبان و تہذیب کی بقا میں تعاون دیا جا سکے۔ ڈاکٹر شمس کمال انجم نے مولانا حامد الانصاری انجم کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلووں پر اختصار سے مگر جامع انداز میں روشنی ڈالی۔ انھوں نے اپنے اعزاز میں پروگرام کے انعقاد پر اظہار تشکر کیا۔ خیال رہے کہ مولانا حامد الانصاری انجم شاعر و ادیب حماد انجم مرحوم، صحافی سہیل انجم اور ڈاکٹر شمس کمال انجم کے والد گرامی تھے۔ معروف نقاد اور قلمکار حقانی القاسمی، ڈاکٹر حنیف ترین، ڈاکٹر شبیر احمد وائس پرنسپل آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج اینڈ ہاسپٹل قرول باغ، الیاس سیفی اور دوسروں نے بھی اظہار خیال کیا۔ شاہنواز فیاض نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا۔ سلمان فیصل، جمال الدین اور دیگر احباب نے پروگرام کے انعقاد میں بھرپور تعاون دیا۔ آخر میں ایک شعری نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی نظامت معروف شاعر درد دہلوی نے کی اور پروفیسر خالدمحمود، کوثر مظہری، ڈاکٹر شمس کمال انجم، درد دہلوی، ڈاکٹر حنیف ترین، شہادت علی نظامی، مجیب قاسمی، امردیپ اوبرائے، معین قریشی، سلیم سہانوی، سراج طالب، عاصم کرتپوری، حبیب سیفی اور احسن فیروزآبادی نے اپنا کلام سنایا۔ سہیل انجم کے شکریہ پر پروگرام کا اختتام ہوا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔