کیا جماعت اسلامی فرقہ پرستوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی ہے!

یہ بات غور کرنے والی ہے کہ جانگی پور پارلیمانی حلقہ سے جیتنے والے امیدوار کو 5 لاکھ 62 ہزار 518 ووٹ ملے جب کہ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے سید قاسم رسول الیاس کو محض 21 ہزار 292 ووٹ ملے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پوری دنیا میں کمیونزم کا بول بالا تھا اور خدا کے وجود کو چیلنج کرنا پوری دنیا میں ایک فیشن سمجھا جاتا ہے۔ لینن اور کارل مارکس سب سے بڑے ہیرو تھے۔ کمیونزم کی وجہ سے پوری دنیا میں سوویت یونین (جس میں سب سے بڑا ملک روس تھا) کی قیادت میں ایک بلاک تھا اور دوسرے بلاک کی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان سرد جنگ جاری رہتی تھی اور دو خفیہ ایجنسیاں بہت متحرک تھیں جس میں سوویت یونین کی’ کے جی بی‘ اور امریکہ کی’ سی آئی اے ‘۔ اس ماحول میں جب تمام مذاہب پر حملہ کیا جا رہا تھا اور مذہب کو افیم سے تعبیر کیا جا رہا تھا اس وقت کمیونزم کے سوالوں کے جواب دینے کے لئے اور اسلام کی شبیہ دور حاضر کی روشنی میں پیش کرنے کے لئے مولانا مودودی سامنے آئے اور انہوں نے مسلم دانشوروں کی ایک تنظیم جماعت اسلامی قائم کی۔ مولانا نےسائنس کی روشنی میں کمیونزم کے حملوں کے جواب دئے جس کی وجہ سے مسلم دانشوروں میں وہ کافی مقبول ہوئے۔

تقسیم کے بعد مولانا پاکستان کے شہری بن گئے اور انہوں نے وہاں اپنا کام جاری رکھا۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس سوچ کی کئی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی نے انتخابی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 1951 اور 1957 میں جب جماعت اسلامی کی شوری ٰ نے سیاست سے تنظیم کو علیحدہ کرنے کی قرارداد منظور کی تو مولانا نے اس کی مخالفت کی جس کے بعد تنظیم کے کئی سینیر ارکان احتجاج میں مستعفی ہو گئے۔ ہندوستان کی جماعت اسلامی کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ صرف دعوت کا کام کرے گی اور سیاست سے دور رہے گی۔ لیکن جب جماعت کے امیر مولانا جلال الدین عمری تھے تو اس وقت جماعت کے کچھ ارکان نے ان پر سیاست میں متحرک ہونے کا دباؤ بنایا۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے یہ اعتراض ختم کر دیا کہ تنظیم کا کوئی رکن کسی بھی سیاسی پارٹی کا رکن نہیں ہو سکتا اور یہ اجازت دے دی کہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے سیاسی پارٹی بنائی جا سکتی ہے جس کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، لیکن جماعت کا رکن اس کا رکن او رعہدیدار ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا ‘کے نام سے سیاسی پارٹی تشکیل ہوئی جس کے بانی صدر جماعت کے رکن مجتبی فاروق بنے اور شوریٰ کے رکن سید قاسم رسول الیاس پارٹی کے جنرل سکریٹری بنے۔


سال 2011 میں قائم ہوئی اس سیاسی پارٹی نے کئی مرتبہ اپنی قسمت بھی آزمائی اور حال میں اختتام پذیر لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کے سربراہ سید قاسم رسول الیاس نے مغربی بنگال کے جانگی پور پارلیمانی حلقہ سے چناؤ لڑا۔ یہاں سے جہاں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق صدر جمہوریہ کے بیٹے ابھیجیت مکھرجی کانگریس کے ٹکٹ پر میدان میں تھے وہیں ترنمول کانگریس سے منتخب خلیل الرحمان میدان میں تھے جبکہ بی جے پی سے مسلم خاتون مفوجہ خاتون امیدوار تھیں۔ان انتخابات میں جہاں جیتنے والے امیدوار کو پانچ لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو اٹھارہ ووٹ ملے وہیں سید قاسم رسول الیاس کو محض اکیس ہزار دو سو بیانوے ووٹ ملے۔

کیا جماعت اسلامی فرقہ پرستوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی ہے!

جماعت کو ویسے تو اسلامی ملک پاکستان میں بھی سیاست میں آنے کے بعد فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا اور آج وہاں کی جماعت بالکل اپنی حیثیت کھو چکی ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں خالص مسلمانوں کی پارٹیاں کچھ علاقوں اور شہروں میں ضرور مقبول ہوئی ہیں لیکن ان کے تعلق سے یہ عام رائے ہے کہ پورے ملک میں یہ صر ف فرقہ پرست قوتوں کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ کچھ یہی ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے۔ سید قاسم رسول الیاس جو جے این یو کے طالب علم عمر خالد کے والد ہیں، ان کے حالیہ عمل کو بھی اسی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ حلقے تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کا کام گھر سے ہونا چاہئے اور وہاں ان کے اوپر سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کسی بھی جماعت کے رکن کا یہ عمل کہ وہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لئے انتخابی میدان میں اترے، اس سے تنظیم کے تعلق سے کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔


جماعت کو اپنی ساکھ اور مقصد کو بچانا ہے تو اس کو صرف دعوت کے کام پر توجہ دینی چاہئے اور اپنے کسی بھی رکن کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور جو ارکان سیاسی میدان میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں ان کو جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ ملک کے موجود ہ ماحول میں جماعت کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 May 2019, 7:10 PM