مہاراشٹر کابینہ توسیع کو لے کر شندے-فڈنویس قصداً کھیل رہے سیاسی آنکھ مچولی!

کہا جاتا ہے کہ شندے نے ان کے ساتھ آئے سبھی باغیوں کو وزیر بنانے کا وعدہ کیا ہے، ایسے میں اگر نصف سے زیادہ بغیر وزارتی کرسی کے رہ جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ناراض ہوں گے۔

ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
user

سجاتا آنندن

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے گزشتہ ہفتہ دہلی جانے کے لیے بالکل تیار تھے۔ مسئلہ وہی تھا کہ مہاراشٹر حکومت کی کابینہ کیسی ہو! لیکن ان کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس بیمار پڑ گئے اور شندے کو اپنا دورہ رد کرنا پڑا، کہ ان کے صحت مند ہونے کے بعد ہی وہ دہلی جائیں گے۔

ابھی جمعرات کو دیویندر فڈنویس دہلی کی پرواز میں چڑھ گئے اور کہا گیا کہ کابینہ کو آخری شکل دینے جا رہے ہیں، لیکن اس بار شندے ساتھ نہیں تھے اور بتایا گیا کہ شندے کی طبیعت خراب ہے۔ اس کے بعد شندے عوامی تقاریب میں نظر ہی نہیں آئے۔ ان کی طرف سے کہا گیا کہ کچھ دن میں وہ صحت مند ہو کر سامنے آئیں گے۔ لیکن ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو پتہ چلا کہ شندے تو بالکل صحت مند تھے۔ اتنا ہی نہیں وہ تو باہر سے آئے مہمانوں کا استقبال بھی کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے اس بات کا فائدہ اٹھایا ہو کہ فڈنویس تو شہر میں ہیں نہیں تو ایسے میں بیرون ملکی مہمانوں کے ساتھ بغیر ڈپٹی کے ہی میل ملاقات کر لی جائے، کیونکہ اکثر عوامی اسٹیج پر سارا فوکس فڈنویس اپنی ہی طرف کر لیتے ہیں۔


اسی ہفتہ مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح ممبئی آئے تھے۔ صالح جب راج بھون گئے تو فڈنویس نے ان کا استقبال کیا تھا اور شندے غائب تھے، ویسے روایت اور پروٹوکول کے حساب سے وزیر اعلیٰ کو وہاں ہونا تھا۔ دھیان رہے کہ عوامی اسٹیج یا تقاریب میں کئی ایسے موقع سامنے آئے ہیں جب فڈنویس نے شندے کو درکنار کیا ہے اور ایسا دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ان میں قابلیت نہیں ہے۔ کئی بار صاف طور پر شندے جھینپ مٹانے کی کوشش کرتے بھی نظر آئے ہیں۔ لیکن اس سب کو لے کر سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ دونوں کے درمیان کی رسہ کشی ایک پالیسی کا حصہ ہے تاکہ باغیوں کو غلط فہمی کی حالت میں رکھا جائے۔

ایسا اس لیے بھی کیونکہ وہ باغیوں کے درمیان بے چینی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ شندے اور ادھو کے درمیان سہ رخی جیسے حالات سے دو چار ہیں۔ ایسی خبریں ہیں کہ شندے گروپ کے کچھ لوگوں نے ادھو ٹھاکرے کو پیغام بھیج کر کہا ہے کہ وہ صرف اس لیے شندے کے ساتھ ہیں کیونکہ انھیں ای ڈی کا خوف ہے۔ اور حالات بہتر ہوتے ہی وہ واپس ان کے ساتھ آ جائیں گے۔ تو کیا یہ مانا جائے کہ ادھو ٹھاکرے کو پیغام بھیجنے والوں کو کابینہ میں جگہ نہیں ملی تو وہ واپس ٹھاکرے خیمہ میں چلے جائیں گے! غالباً یہی وجہ ہے کہ شندے-فڈنویس حکومت کی کابینہ تشکیل نہیں پا رہی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دکھاوے کی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس بہانے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے لیے بھی وقت حاصل کر رہے ہیں، اور یہ فیصلہ پیر کے روز آنے کا امکان ہے۔


ویسے اس بات کو لے کر بھی کسی کو حیرت نہیں ہوئی جب فڈنویس جمعہ کو ہی ممبئی واپس آ گئے، وہ بھی بغیر کابینہ کی فہرست کو آخری شکل دیے ہوئے۔ صرف اتنا ضرور سامنے آیا کہ 40-60 کے تناسب میں کابینہ کی توسیع ہوگی۔ حالانکہ یہ بھی سامنے نہیں آیا کہ 60 کس کا اور 40 کس کا ہوگا، لیکن مہاراشٹر اسمبلی میں سیٹوں کی مجموعی تعداد 288 ہونے کے سبب طے ہے کہ زیادہ سے زیادہ 42 وزیر ہی بن سکتے ہیں۔ بی جے پی کے پاس اس وقت اپنے 105 اراکین اسمبلی ہیں اور شندے گروپ 40پلس کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ تقریباً 25 کابینہ سیٹیں بی جے پی کو اور 15 کے قریب سیٹیں شندے گروپ کو ملیں گی۔

کہا جاتا ہے کہ شندے نے ان کے ساتھ آئے سبھی باغیوں کو وزیر بنانے کا وعدہ کیا ہے، ایسے میں اگر نصف سے زیادہ بغیر وزیر کی کرسی کے رہ جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ناراض ہوں گے۔ اسی حالت سے بچنے کے لیے شندے-فڈنویس معاملے کو الجھائے ہوئے ہیں۔ اور پھر شندے گروپ کے ترجمان دیپک کیسرکر کے اس بیان سے کسی کو حیرت بھی نہیں ہوئی کہ اتوار تک کابینہ کی توسیع پیر کو ممکنہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہو جائے گی۔ اُدھر فڈنویس کے نزدیکی اور سینئر بی جے پی لیڈر سدھیر مننگتیوار نے کہہ دیا کہ انھیں ابھی تو نہیں پتہ ہے کہ کابینہ توسیع کب ہوگی لیکن یہ کام 14 اگست سے پہلے ہی ہونا ہوگا کیونکہ ضلعوں کے گارجین منسٹرس کو اپنے اضلاع میں ترنگا لہرانے کے لیے آزادی کے پلیٹنم جبلی تقریب میں موجود رہنا ہے۔


یہ سب سامنے آنے کے بعد کئی اراکین اسمبلی دوڑے دوڑے شندے کے گھر پہنچے، لیکن وہ کسی سے نہیں ملے اور انھیں واپس لوٹا دیا گیا کہ صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ آرام کر رہے ہیں۔ پھر بھی شندے ایسے لوگوں سے خوب مل رہے ہیں جو کم از کم کابینہ توسیع کا تذکرہ نہیں کرتا ہے۔ ان سارے حالات اور اتھل پتھل کے مدنظر بھلے ہی یہ نہ کہا جائے کہ حالات بے قابو ہیں، لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مہاراشٹر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔